shen shokat 6

کب تک رہے گی شہر میں ہر جنس کی گرانی

اگر دال زبر لام دل کہتے ہیں لشکر کو، تو ہم ٹڈی دل کو ٹڈیوں کا لشکر بھی کہہ سکتے ہیں، جنہوں نے ہماری سرحدیں عبور کرکے ہمارے کھیتوں اور کھلیانوں کا ستیا ناس کر دیا، اگر ٹڈیوں کا یہ دل چائنا کا رخ کرتا تو وہاں پہنچ کر ان کی ایسی درگت ہوتی کہ ساری کی ساری ٹڈیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آجاتا۔ بھون کے رکھ دیتے سنبھلے ہوئے گراں خواب چینی ان کو، یا کچا ہی چبا جاتے ہر اس ٹڈی کو جو ان کے ہاتھ چڑھتی، کمال کے ہیں یہ لوگ، نت نئی ایجادات واختراعات کرکے عالمی منڈی پر اپنی دھاک بٹھا بیٹھے اور ایک ہم ہیں کہ ادھر ہمارے کھیتوں پر ٹڈیوں نے حملہ کیا ادھر ہم ڈھول بجاکر، ٹین کے کنستر کھٹکھٹا کر یا کھیتوں میں دھواں کرکے ان کو بھگا نے کی کوشش کرتے رہے اور وہ مزے لے لیکر چٹ کرتی رہیں۔ ہماری فصلوں کو، ہمارے کھیتوں اور کھلیانوں پر ٹڈی دل نے پہلی بار حملہ نہیں کیا۔ اس سے پہلے بھی کئی بار افریقہ سے ٹڈیوں کے دل کے دل اُڑ کر ہمارے ملک میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اسکول کا وہ زمانہ اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے ملک کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ٹیڈی لباس کو ایک فیشن سمجھ کر اپنا رہے تھے
کچھ ماہ جبین لباس کے فیشن کی دوڑ میں
پابندی لباس سے آگے نکل گئے
ٹیڈی لباس پہننے والوں کو زعم تھا کہ وہ ایسا لباس پہن کر اسمارٹ نظر آئیں گے جبکہ ٹیڈی بننے والوں پر تنقید کرنے والے ان کو آڑے ہاتھوں لینے میں کوئی کسر روا نہ رکھتے۔ اللہ جانے کیا ہوگیا ہے ہماری نوجوان نسل کو، اپنے آپ کو ٹیڈی کہلوانے کے شوق میں ایسا لباس پہنتے ہیں کہ اگر وہ کچھ نہ پہنیں تو نامناسب نہ ہو۔ یہ بات ایک مقرر اپنی دھواں دھار تقریر کے دوران ٹیڈیوں کے لباس پر تنقید کرتے وقت کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ازراہ تفنن طبع جلسہ گاہ میں موجود لوگوں کو بتایا کہ آج صبح میری نظر ایک ٹیڈی پر پڑی اور میں اسے سر سے پاؤں تک گھورنے لگا۔ ٹیڈی نے میری آنکھوں کی تاب نہ لاکر دوسری جانب دیکھنا شروع کردیا لیکن اس نے جیسے ہی منہ پھیر کر میری جانب دیکھا تو میں اسے اس وقت بھی گھورتا یا اس کے سر سے پاؤں تک کا جائزہ لیتا نظر آیا۔ مقرر فرما رہے تھے کہ میرے اس طرح گھورنے پر اس ٹیڈی کی غیرت بیدار ہوگئی اور وہ بگڑے ہوئے انداز میں مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیوں گھورے جارہے ہو مجھے۔ جس کے جواب میں مجھے کہنا پڑا کہ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تم اتنے تنگ لباس میں گھس کیسے گئے اور اب اس سے نکلوگے کیسے۔ پرہجوم جلسہ کے سامعین مقرر کی اس بات پر کھل کھلا کر ہنسنے لگے۔ بہت سے لوگ ٹیڈی لباس کی مناسبت سے ہر اس شے کو ٹیڈی کہہ کر پکارتے تھے جس کا سائز تنگ لباس کی طرح چھوٹا ہوتا۔ مثلاً فصیل شہر میں نکالے گئے چھوٹے چھوٹے دروازوں کو وہ کل کی طرح آج بھی ٹیڈی دروازہ ہی کہتے ہیں۔ اعشاری نظام متعارف ہوا تو ایک روپے کے سوویں حصہ کے منے سے سائز کی وجہ سے ٹیڈی پیسہ کہا جانے لگا۔ نوجوان نسل میں ٹیڈی لباس پہننے کی علت اتنی تیزی سے پھیلی کہ ہوش مند لوگوں کو اس فیشن سے چڑ ہونے لگی کہ وہ گلی گلی دیواروں پر لکھنے لگے کہ ”ٹڈی سے فصل کو بچاؤ اور ٹیڈی سے نسل کو بچاؤ” ان دنوں ہمیں علم نہیں تھا کہ ٹڈی ہماری کھڑی فصلوں کیلئے کیوں خطرناک ہے اور اس کا دل یا لشکر کہاں سے اُڑ کر ہماری سرحدوں کو عبور کر کے ہمارے کھیتوں پر حملہ آور ہوتا ہے، اب ہم یہاں تک جان چکے ہیں کہ ان کو بھون کر کھانے میں کوئی قباحت نہیں، پروٹین سے بھرپور ہونے کی وجہ سے اسے مرغیوں کی خوراک تیار کرنے میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، ان میں آئرن، پوٹاشیم، کیلشیم، زنک اور سوڈیم بھی پایا جاتا ہے۔ اگر ہمارے کسان ان کو دیکھ کر ڈھول بجانے یا دھواں کرنے کی بجائے ان کو پکڑنا شروع کر دیں تو وہ اپنی آمدن میں بے پناہ اضافہ کرسکتے ہیں، معیشت بچانے کیلئے ٹڈی دل کا خاتمہ کرنا ہوگا، یہ بات پاک آرمی کے سپہ سالار جنرل باجوہ نے کی ہے تو حکومت نے ٹڈی دل کے خاتمہ کیلئے ٹائیگر فورس کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا ہے، دوسری طرف یہ پیشن گوئی بھی کی جارہی ہے کہ مون سون کے موسم میں 20فیصد زیادہ بارش ہوگی جو ٹڈی دل کی افزائش کا باعث بنیں گی، ٹڈی دل کیخلاف یہ نیا عزم، جوش وجذبہ اور خدشات سانپ کے گزر جانے کے بعد لکیر کو پیٹنے کے مصداق ہے، پہلے کہا جاتا تھا کہ اب پچتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت، اب چڑیوں کی بجائے ٹڈیاں چگ گئیں کھیت کہنا چاہئے، آپ جتنے منہ اتنی باتوں کے مصداق جو کہتے رہے سو کہتے رہیں بھارتی کہہ اُٹھے ہیں کہ یہ سب پاکستان کا کیا دھرا ہے، اس نے بھیجی ہے ہمارے ہاں ٹڈیوں کا یہ لشکر جرار، ان کو اس بات کا علم نہیں کہ ٹڈیوں نے اپنے پیٹ کا جہنم پالنے کیلئے یہ جارحانہ حملہ کیا ہے، اے کاش ہم ڈریگن فلائی کی بھرپور دعوت کرسکتے مگر ہم تو اک عالم پریشانی میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں کہ
کھیتوں میں بھوک کب تک، اگتی رہے گی یونہی
کب تک پیاسے کنویں مانگیں گے بوند پانی
سستا بکے گا کب تک یہ خون اور پسینہ
کب تک رہے گی شہر میں، ہر جنس کی گرانی

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی