5 116

لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی

بدمعاش اس زمانے میں بھی تھے جب آئس جیسا تباہ کن نشہ عالم وجود میں نہ آیا تھا۔ جرأت نہ ہوتی تھی کسی کو ٹیڑھی آنکھ سے اس گلی کی جانب دیکھنے کی جہاں ایسے بدمعاش رہتے تھے۔ راکھی ہوا کرتے تھے وہ گلی محلے کی ماؤں بہنوں کی عزت کے، اگر کوئی نادار تکلیف میں ہوتا تو اسے کہتے جاؤ فلاں سیٹھ کو میرا نام لیکر کہو کہ وہ تمہاری ضرورت پوری کر دے اور پھر ایسا ہی ہوتا وہ سیٹھ، نواب یا دولت مند ایسے بدمعاشوں کا نام سنتے ہی اپنی تجوریاں کھول کر دے دیتے تھے ضرورت مندوں کو، پشاور شہر کے مچلے وال کے تو نام ہی سے خوف کھاتا تھا فرنگی سامراج۔ ایسے بہت سے نام ہیں جو اس موضوع پر لکھتے وقت گنوائے جا سکتے ہیں لیکن میری آج کی تحریر کا روئے سخن ‘عامرے تہکالی’ کی بھڑکائی ہوئی اس آگ کی جانب ہے جس کے متعلق راقم السطور کا گمان ہے کہ وہ اس کے نادان اور پرلے درجے کے بے وقوف عاق شدہ، ناخلف اور اسیر و پا بہ زنجیر بیٹے شہباز علی کی طرح آئس کا نشہ کرتا ہوگا،
نادان عامر تہکالی نے قانون کے محافظوں کو ننگی گالیاں دیکر اپنے اندر کی آگ کو اُگلا ہی نہیں بلکہ مادرپدر آزاد سوشل میڈیا پر وائرل کرکے بھسم کر ڈالا اپنی خوبصورت جوانی تک کو، بھلا کب نچلے بیٹھ سکتے تھے پولیس کے بزعم خود چند غیرت مند کردار، انہوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ٹھانی کہ وہ بھی دھت تھے اپنی وردی کی طاقت یا اختیار کے نشے میں۔ چڑھ گیا نشہ ان کے سر اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ خونخوار درندے بن کر گھسیٹتے ہوئے لے آئے عامرے تہکالی کو اپنی کچھار میں۔ عامر اگر ہیروئن پھونکنے کا عادی ہوتا تو ایسی حرکت کبھی بھی نہ کرتا کیونکہ ہیروئن کے عادی ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں سکتے۔ افیونی بھنگی چرسی اور اس قبیل کے دیگر نشے باز گر جاتے ہیں مدہوش ہوکر۔یہ آئس کا نشہ اندر کے آتش فشاں کو نکال باہر کرتا ہے، ٹوٹ جاتا ہے آئس زدہ نشہ بازو ں کے پریشر ککر کا ڈھکن، پھٹ جاتے ہیں وہ اور بھسم کرکے رکھ دیتے ہیں متاع جاں کے علاوہ اپنے بدقسمت ماں باپ بیوی بچوں اور چاہنے والوں کو جن کو زمانہ ان کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتا رہتا ہے۔ نشہ کوئی بھی ہو اسے اچھا نہیں کہا جاسکتا۔ جانے کیوں ہمارے خمری گو شعراء نشے کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں۔ اگر پرانے وقتوں میں آئس نامی زہر متعارف ہوچکی ہوتی تو ان کے سرور بھرے اشعار تکبر اور غرور کی عکاسی کرتے۔ ہمیں عامر تہکالی کے انداز تکلم اور دشنام طرازی میں آئس کی بو محسوس ہوئی لیکن میں اس گند، بو یا باس کو کس نام سے پکاروں جس نے پولیس کی وردی پر چھینٹے پھینک دئیے اور پھر اس کی ویڈیو بناکر اسے سوشل میڈیا پر وائرل کرکے اپنے قابل ترس ذہنوں کا معیار پیش کر دیا۔
خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہئے
میں ان سوچوں میں گم تھا کہ ایسے میں اپنی ساری زندگی کو قانون کی حفاظت کیلئے وقف کر دینے والے ازطغرل غازی جیسے خوبصورت قد کاٹھ کے مالک ایسے پولیس آفیسر یاد آنے لگے جن کو میں مرشدی کہہ کر پکارتا ہوں کہ وہ اقلیم شعر وسخن کے ایسے بادشاہ ہیں کہ ان کی زبان سے علمی اور ادبی باتیں پھول بن کر جھڑتی رہتی ہیں لیکن اس وقت وہ مجھے عجیب نظر آنے لگے تھے جب وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا واقعہ سناتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ”میں بڑے بڑے بدمعاشوں کو پکڑ کر دیوار کیساتھ پٹخ دیتا تھا اور ان کو کہتا تھا کہ اگر تو بدمعاش ہے تو میں سرکاری بدمعاش ہوں”۔ مجھے جرأت نہیں ہوئی ان کو یہ بات کہنے کی کہ بدمعاش نام ہی بدنام زمانہ معاش رکھنے والوں کا ہے’ اگر عامر نشے میں چور تھا تو قانون کے رکھوالوں کو کیا ہوگیا تھا۔ اگر قانون کی حفاظت کرنے والے ہی قانون کی دھجیاں اُڑانے لگیں تو پھر غیر قانونی حرکتیں کرنے والوں اور ان میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ قانون کے لمبے ہاتھوں کو خاطر میں نہ لانے والے عقل کے اندھے ہوتے ہیں اور ہماری پولیس کے سجیلے جوان ان کی تنی ہوئی گردن کو دبوچ کر انصاف کے کٹہرے میں لاکر کھڑا کر دینے کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔ اگر قانون کے رکھوالے نہ ہوتے تو امن پسند لوگوں کیلئے زندگی کتنی عذاب ہوتی اس ڈراؤنے خواب کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ہماری پولیس کے چاک وچوبند دستے ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔ کبھی کبھی کیا اکثر وبیشتر ان کو اپنے فرائض منصبی نبھانے کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہم ہر سال ‘یوم شہدائے پولیس’ منا کر ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں مگر عامر تہکالی کی دشنام طرازیوں کے جواب میں وہ بدلے کی جس آگ میں بھسم ہوئے اس نے پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کی نیک نامیوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔ سارے ہی پولیس والے خراب نہیں اور سارے ہی پولیس والے فرشتے بھی نہیں۔ بہت سی کالی بھیڑیں موجود ہیں اس شعبے میں جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کر رہے ہیں، گلی گلی بک رہی ہے منشیات کی زہر یہ بات میرے ایک جاننے والے نے کہی۔ اگر وہ یہ سب جانتا ہے تو پولیس والے کیوں نہیں جانتے
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھے سمجھاؤ میں شرابی ہوں

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام