5 121

اسلامی معاشروں کو درپیش چیلنجز

اسلامی معاشروں کو اگرچہ تحدیات(چیلنجز) صدیوں پہلے درپیش ہوئے تھے لیکن اُس وقت شاید ذرائع مواصلات اور ٹیکنالوجی کی آج کی طرح ترقی نہ ہونے کے سبب اس شدت سے احساس نہیں ہورہا تھا یا اس کے اس قدر گہرے اثرات ہم پر نہیں پڑ رہے تھے کہ ہم سب کو احساس ہوتاکہ پانی تو سر تک پہنچ چکا ہے بلکہ شاید سر سے گزرنے کے قریب ہے ، آج تو حالات اس نہج اور حد پر پہنچے ہیں کہ ہر مسلمان ملک اپنی بقا کی فکر میں ہے اور سارے مسلمان ملکوں کو درپیش تحدیات اور مسائل تقریبا ً ایک جیسے ہیں ۔ میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ اور چیلنج جو مسلمان ملکوں کو درپیش ہے وہ نظام حکومت ہے اور اسلامی ممالک جہاں کسی نہ کسی صورت کوئی جمہوری نظام موجود ہے وہاں ہر سیاسی جماعت اس دعوے کے ساتھ آتی ہے کہ ہم عوام کی معاشی ، تعلیمی اور دیگر ضروریات زندگی سے منسلک معاملات لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کر کے انقلاب بر پا کردیں گے ۔ لیکن حالات اگر پہلے سے زیادہ خراب نہ بھی ہو جائیں ، جو ں کے توں ضرور رہ جاتے ہیں ۔ پاکستان ، بنگلہ دیش ، ملائشیا ، ترکی اور نائجیریا ، الجزائر اور مصر الغرض کس کس کانام لیا جائے ، سب کا یہی حال ہے ۔ مسلمان ملکوں اور معاشروں کو نظام حکومت کے حوالے سے ایک اور بڑ اچیلنج یہ درپیش ہے کہ کم و بیش ہر مسلمان ملک میں وہاں کی آبادی کی اکثریت حکومتی سطح پر اسلامی نظام حکومت چاہتی ہے جبکہ مغرب اور امریکہ سے متاثر اور اُن کی آشیر باد کے ساتھ ہر مسلمان ملک کا طبقہ اشرافیہ (مراعات یافتہ اور لبرل ) من وعن مغربی جمہوریت کا دلدادہ ہے اور اکثر و بیشتر حقیقی جمہوریت ، اور آزاد معاشرہ نہ ہونے ( جا گیر دا رانہ اور سرمایہ دارانہ )نظام کے تحت صاف و شفاف انتخابات کے فقدان کے سبب وہ حکمرانی کی مسند براجمان بھی رہتا ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں ہر اسلامی ملک میں ہر دور میں کئی ایک مضبوط اور عوام میں جڑیں رکھنے والی مذہبی جماعتیں شریعت کے نظام کے لئے کوشاں رہتی ہیں اور کئی ایک ملکوں مثلاً پاکستان ، مصر ، ترکی ، الجزائر ، سوڈان ، تیونس وغیرہ میں جب کبھی قدرے بہتر انتخابات کا انعقاد ہوا ہے وہاں کی مذہبی جماعتوں نے اچھا سکور کیا ہے ۔ ان وجوہات کی بناء پر اسلامی معاشروں میں گزشتہ ایک صدی سے مسلسل اسلام پسندوں اور لبرل و سیکولر ذہن و فکر کے ارباب سیاست کے درمیان شدید کشمکش رہی ہے جو بعض ملکوں خون ریزی تصادم اور خانہ جنگیوں میں بدلتی رہی ہیں ۔ ہمارے پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان اس کی بہت واضح مثالیں ہیں ۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی امریکا کااس خطے میں ایسا لبرل تھا کہ ایران پر اُس زمانے میں تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے یورپ کا گمان ہوتا تھا ۔ عالم اسلام کا ایک اور اہم اور ترقی یافتہ ملک ترکی چند سال قبل جن حالات سے گزرا وہ ساری دنیا کے سامنے ہے اور اس کے مابعد اثرات اب بھی ترکی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی پرواضح ہیںگولنزم اب امریکی آشیر باد کے ساتھ ترکی کی حیثیت کو متاثر کررہا ہے ۔ اس کے علاوہ عالمی قوتوں نے شام اور عراق کے کردوں کو جس راہ پر لگا یا ہے ، اُس کے سدباب کے لئے ترکی شام میں نہ چاہتے ہوئے بھی عسکری طور پر ملوث ہوگیا ہے ۔ عالم اسلام کے مرکز اور تقدس و تبرک کے لحاظ سے بے مثال ملک سعودی عر ب کو ملک کے اندر اور باہر جو تحدیات درپیش ہیں ، اُس نے سعودی عرب کو امریکہ سے اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس کے علاوہ جدیدیت اور روشن خیالی کی جس لہر نے حجاز اور نجد میں جو آتش فشاں اور لاوا سلگنے دیا ہے وہ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے ۔ اسلامی ملکوں کے اندر فقہی اور مسلکی بنیادوں پر جو فرقہ واریت چلی آرہی ہے اُس کا حل دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ اسی وجہ سے امت مسلمہ کا تصور بُری طرح دھندلا گیا ہے ۔ اس کے اوپر جہالت اور تعلیم و ٹیکنالوجی کے شدید قحط نے اسلامی ملکوں کو آئی ایم ایف کا مقروض بناکر رکھا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کی سطح پر علم کی تقسیم اسی بری طرح ہوئی ہے کہ آج بھی جامعات اور مدارس کے درمیان ایک وسیع فکری خلیج حائل ہے ۔ کوئی مجتہد اور نابغہ ایسا دور دور تک نظر نہیں آتا جو اس مسئلے کو اس انداز میں سلجھا لے کہ ایک دفعہ پھر ایک ہی مدرسے امام ابو حنیفہ اور ابن رشد نکل سکیں ۔ لیکن یہاں تو حال یہ ہے کہ علامہ اقبال نے آج سے بہت پہلے فرمایا تھا ۔
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہا ںسے آئے لا الہ الاللہ
آخرمیں سب سے بڑے چیلنج کا ذکر کرتا چلوں وہ یہ کہ اسلامی ملکوں میں طرز اور نظام حکومت کے بارے میں آج کی نوجوان نسل کے مستقبل کو مد نظر رکھ کر معاصرعالمی تناظر میں سیاسیات اقتصادیات اور دفاع و ٹیکنالوجی اور دیگر لوازمات و ضروریات کو اسلام کی بنیادی تعلیمات اور احکام کی روشنی میں حکومتیں چلانے کے لئے دساتیر اور آئین اور سوشل کنٹریکٹس بنانے ہونگے ورنہ اللہ خیر کرے حالات کے تیور بڑے طوفانوں کی پیشنگوئی کر رہے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ