3 123

یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی

صبح جب ہم ناشتے سے فارغ ہوجاتے ہیں تو گلی میں سبزی والے کی انتہائی تیز آواز گونجتی ہے، وہ مختلف سبزیوں کے نام لے لیکر لوگوں کو باخبر کرتا ہے کہ اگر کسی نے کچھ خریدنا ہے تو گھر سے باہر نکل آئے۔ ہم نے تو باہر کیا نکلنا ہوتا ہے ہم اپنے بیٹے سے کہتے ہیں کہ بیٹا جاؤ فلاں سبزی لے آؤ، پیاز اور ٹماٹر کی ضرور ت ہوتی ہے تو وہ بھی منگوا لیتے ہیں لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بیٹا واپس آکر کہتا ہے کہ بابا سبزی والا تو گلی سے جا چکا ہے، ہم اسے کہتے ہیں کہ ابھی تو ہم نے اس کی آواز سنی ہے یہ اتنا جلدی چلا بھی گیا؟ شاید اس کے پاس رکنے کا یا خریداروں کیلئے انتظار کرنے کا وقت نہیں ہوتا اور اسے بہت سے علاقوں میں سبزی پہنچانی ہوتی ہے، اگر اس کی صدا پر کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا تو وہ بغیر انتظار کی زحمت اُٹھائے، رخصت ہو جاتا ہے۔ شاید اسی کا نام زندگی ہے زندگی کی ٹرین چل رہی ہے اور بغیر رکے چل رہی ہے، اگر کسی نے آگے بڑھ کر زندگی کو قیمتی بنانا ہے اس سے فائدہ اُٹھانا ہے تو اسے ہر وقت ہوشیار رہنا پڑتا ہے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا، یہ بھی اس سبزی والے کی طرح کچھ دیر صدائیں بلند کرنے کے بعد رخصت ہو جاتا ہے اور پھر ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔ زندگی دبے پاؤں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے اور ہمیں اس کے گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ جب ہمیں ہوش آتا ہے تو زندگی کی شام ہوچکی ہوتی ہے۔ پھر پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے ندامت ہوتی ہے اور خیال آتا ہے کہ ہم نے وقت کو ضائع ہی کیا ہے ہم ایسی مصروفیات میں اُلجھے رہے جن کی مثال کوئلوں کی سوداگری جیسی تھی جس میں ہاتھ اور منہ دونوں کالے ہوجاتے ہیں اور کچھ ہاتھ بھی نہیں آتا۔ حکمرانوں کی مثال اس حوالے سے بڑی مناسب ہے ان کو اللہ کریم نے اختیار دیا ہوتا ہے یہ اپنے اختیار سے مخلوق خدا کو فائدہ بھی پہنچا سکتے ہیں اور نقصان بھی۔ مولانا روم نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے اسے پانے کے بہت سے راستے تھے مگر میں نے مخلوق سے محبت والا راستہ چن لیا کہ اللہ پاک کی مخلوق سے محبت کرکے اس کی خدمت کرکے اللہ تعالیٰ کو حاصل کرلوں اسے راضی کرلوں۔ جس سے اللہ کریم راضی ہوگیا وہ کامیاب ہوگیا، اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ زندگی مختصر ہے اگر کوئی عمل خیر کرنا ہے تو جلدی سے کرگزرو ورنہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ اس کی مثال سردیوں کی دھوپ جیسی ہے سردیوں کا سورج بہت جلد غروب ہو جاتا ہے یا پھر جس طرح برف پگھلتی ہے برف کا بہت بڑا ٹکڑا آپ کو اپنے سامنے پڑا ہوا نظر آتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ بڑے غیر محسوس طریقے سے پگھل رہا ہوتا ہے جب تھوڑی دیر بعد آپ کی نگاہ اس پر پڑتی ہے تو پھر وہاں پر کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہاں پر ایک بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ زندگی مختصر ہے تو ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی مختصر نہیں ہے یہ تو ایک ایسا سفر ہے جو نجانے کب سے شروع ہوا اور جانے کب تک چلتا رہے گا، اس کی کوئی حد نہیں ہے اور اس کا اختتام بھی نہیں ہے۔ بس یہ بات سمجھنے کی ہے کہ زندگی کے مرحلے ہیں ایک مرحلہ اس دنیا کا ہے جو بہت جلد گزر جانے والا ہے اور ایک مرحلہ وہ ہے جس سے ہمارا واسطہ مرنے کے بعد پڑے گا جب صور اسرافیل پھونک دیا جائے گا مردے قبروں سے اپنے اپنے کفن جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوں گے، اس وقت سب یوم حشر کی طرف رواں دواں ہوں گے، یہ وہ دن ہے جسے آج ہم یوم حساب کے نام سے جانتے ہیں، اس دن ہم سے ہمارے اعمال کی پوچھ گچھ ہوگی، یہی وہ دن ہے جب ہم سے زرے زرے کا حساب ہوگا۔ کیا کمایا کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا۔ ماں باپ کے حقوق کا خیال رکھا؟ اپنی اولاد کے حقوق کا احساس تھا؟ زندگی جانوروں کی طرح گزاری یا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کی؟ صرف کھانے پینے سے تعلق رکھا لہو ولعب میں مشغول رہے اور اس مختصر سی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے یا پھر آنے والی زندگی کیلئے بھی کچھ کمائی کی؟ بات حکمرانوں سے شروع ہوئی تھی کہ ان کے پاس بڑے مواقع ہوتے ہیں یہ مخلوق خدا کی خدمت کرکے انہیں نفع پہنچا کر سہولتیں مہیا کرکے اپنی آخرت سنوار سکتے ہیں اور مخلوق خدا کے حقوق غصب کرکے ان کی زندگی مشکل بنا کر اپنی آخرت کو تباہ بھی کرسکتے ہیں اور وہ زندگی جس کا اختتام نہیں ہے جس میں ہم سب کو ابدالآباد تک جینا ہوگا اور وہ جینا اس دنیا میں گزارے ہوئے وقت کیمطابق ہوگا۔ بقول اقبال:
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
یہاں جو کچھ بویا ہوگا وہی وہاں کاٹنا ہوگا، اگر یہاں کانٹے اُگائے ہوں گے تو وہاں کانٹے ہی ملیں گے جس نے پھول اُگائے ہوں گے وہ وہاں پھولوں کی فصل کاٹے گا۔ یوں کہئے کہ آنے والی زندگی کا دار ومدار اس موجودہ زندگی کے اعمال پر ہے یہاں اچھا کیا تو وہاں اچھا پیش آئے گا، اگر یہاں برائی کی فصل اُگاتے رہے تو پھر وہاں برائی ہی پیش آئے گی۔ سب سے پہلے ہم سب کو اپنے اپنے گریباں میں جھانکنے کی ضرورت ہے یہ دنیا اس لئے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ اس کی اچھائی یا برائی پر ہی آنے والی زندگی کا دار ومدار ہے۔ ہماری جوانی ہو یا حکمرانوں کی چند روزہ حکمرانی سب نے بہت جلد گزر جانا ہوتا ہے، ایک وزیراعظم سے جب کرسی چھین لی جاتی ہے وہ اپنے گھر کی تنہائیوں میں اکیلا بیٹھا یہ ضرور سوچتا ہے کہ میں وزارت عظمیٰ کے دور میں بہت کچھ کرسکتا تھا اپنے بہت سے وقت کو ادھر ادھر کی فضول باتوں میں ضائع کرنے سے بچا سکتا ہے، دوسروں پر کیچڑ اُچھالنے سے بہتر تھا کہ میں مخلوق خدا کو آسانیاں فراہم کرتا رہتا، ان کی دلجوئی کرتا، ہماری جوانی، صحت، تندرستی، غربت، امارت، حکمرانی سب نے گزر جانا ہوتا ہے ہمارے ہاتھ وہی آتا ہے جو ہم نے اپنے اعمال سے اپنے لئے کمایا ہوتا ہے باقی سب کہانیاں ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس