saddiq mayar 2

اب بھی مہلت ہے

عمران خان کی حکومت کو دو سال ہوگئے، حسب توقع اور حسب روایت ان ہاؤس تبدیلی، نئے الیکشن یا فرشتوں کے دوبارہ آسمان سے اُترنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ عمران خان سے کیا صحیح ہوا اور کیا غلط، کیا ممکن تھا اور کیا ناممکن، ان سب پر دونوں طرف کے دلائل موجود ہیں لیکن دو سال بعد کی یہ صورتحال کم ازکم میرے لئے غیرمتوقع نہیں، ویسے اپوزیشن کے اطمینان کیلئے بتا دوں کہ ملک کو اس وقت جس قسم کے مالی اور سیکورٹی بحران درپیش ہیں اس کو دیکھتے ہوئے سمجھ نہیں آتی کہ وزیراعظم پاکستان کے ایٹمی پروگرام، کشمیر، افغانستان اور مشرق وسطی کے معاملات پر دوررس قومی مفادات قربان کئے بغیر کیسے ان طوفانوں سے ملک کی کشتی پار کرائے گا۔ پاکستان کے چاروں طرف دشمنوں کی موجودگی، خالی خزانہ، 124روپے کا ڈالر اور پاکستان کی بین الاقوامی تنہائی، اس وقت ملک کی سربراہی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا تاج ہے۔ عمران خان کو جلد یا بدیر مکمل قومی اتفاق رائے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ مندرجہ بالا پس منظر میں انصافیوں سے بھی گزارش ہے کہ اپنے لیڈر پر غیر ضروری مطالبات کا بوجھ ڈالنے کی بجائے اس کی سادگی کے مشن میں اس کا ساتھ دیں۔ ورنہ اگر آئندہ دو ڈھائی سال میں عمران خان نے کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہیں دیا تو پھر۔۔ پاکستان میں ویسے بھی پانچ سال کی بجائے دو ڈھائی سال تک حکومتیں چلنے کا رواج عام ہے۔ میں نے 6اگست والے میگزین میں یہ لکھا تھا کہ جناب عمران خان کو جیت مبارک، مبار ک سلامت وغیرہ سے فارغ ہو کر ذرا دیر کیلئے تنہائی میں بیٹھیں اور اللہ بزرگ وبرتر کا شکر ادا کر نے کے بعد سوچیں کہ آخر عوام نے آپ کو کیوں ووٹ دئیے۔ کیا آپ شریف برادران سے زیادہ سرمایہ دار ہیں؟ کیا آپ نے شریف برادران کی طرح گزشتہ تیس سال میں اپنی مرضی کی بیوروکریسی بھرتی کی ہے جو ترقیاں پاکر گریڈ20اور اس کے اوپر پہنچ چکی ہے اور اس نے آپ کا ساتھ دینے کی قسم کھائی ہوئی ہے ؟ کیا آپ کا تعلق کسی بڑے سیاسی خاندان سے ہے اور آپ کو ووٹروں کی عقیدت میراث میں ملی ہوئی ہے ؟ کیا آپ کا تعلق کسی بڑے فوجی گھرانے سے ہے ؟ کیا آپ عوام کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کا ہنر جانتے ہیں ؟ کیا آپ دنیائے کرکٹ کے واحد کپتان ہیں جس نے ورلڈ کپ جیتا ہے ؟ 1992کے بعد اور اس سے پہلے بہت سارے کپتان ورلڈ کپ جیت چکے ہیں اور کسی کو وزیر تک نہیں بنایا گیا، پھر آپ کیوں وزیر اعظم بنے؟ کیا آپ قائد اعظم جتنے عظیم رہنما ہیں جس نے پاکستان بنایا، اگر نہیں تو پھر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھئے کہ عوام نے کن توقعات پر آپ کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ صرف کینسر ہسپتال اور ایک یونیورسٹی؟ نہیں سر بالکل نہیں۔ آئیے میں آپ کو بتادوں کہ عوام نے کن دو توقعات پر آپ کو ووٹ دئیے ہیں، وہ دو توقعات ہیں فوری اور سستا انصاف اور کرپشن کا خاتمہ۔ انصاف تو ہر ہاکستانی کا حق ہے لیکن اس51فیصد خواتین آبادی کا خصوصی حق ہے جنہوں نے ہر محاذ پر آپ کو سپورٹ کیا ہے ۔کرنا صرف اتنا ہے کہ ان بے چاری خواتین کو والدین کی وراثت میں سے ان کا حق دلادیں اور ان کو تیزاب پھینکنے، تشدد کرنے، ونی اور سورہ کرنے یا ان کی قرآن سے شادی کی قبیح جرائم سے ان کو نجات دلادیں۔نیز انتظامیہ کو پابند کریں۔کہ وہ گھر گھر سروے کرکے ہر بچی کی تعلیم اور صحت کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ ان حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے خواتین ججوں پر مشتمل الگ خصوصی عدالتیں بنانے کا حکم جاری کریں۔ہر عدالت روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے ایک مہینے کے اندر اندر مقدمے کا فیصلہ کرنے کی پابند ہو۔ فیصلوں کیخلاف اپیلیں پندرہ دن کے اندر ہوں اور اپیلوں پر فیصلے بھی پندرہ دن کے اندر ہوں۔ بہنوں کو وراثت میں حصہ ملنے تک بھائی بھی جائیداد کی آمدنی کے حقدار نہ ہوں۔ یوں بھائی خود کوشش کریں گے کہ جلد سے جلد جائیداد کا تصفیہ ہو ۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔ کہ عوام کو روٹی کپڑا مکان سے پہلے فوری اور سستے نظام انصاف میں دلچسپی ہے۔ آپ کا دوسرا دلکش وعدہ کرپشن کے خاتمے کا ہے۔پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن افسوس سارے وسائل کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں۔ بیوروکریسی کی اکثریت کرپٹ، سیاستدانوں کو کرپشن سکھانے والی بھی بیورو کریسی، وزیروں کی کرپشن کا اثر نیچے کلرک تک جا پہنچتا ہے۔ نتیجتاً پورا نظام کرپٹ اور پاکستان کے سارے سرکاری ادارے تباہ، آسان حل؟ پوری سیاسی قیادت کا کرپشن سے پاک ہونا اور کرپٹ بیوروکریسی کی گھر رخصتی، جس طرح یحییٰ خان اور بھٹو نے سینکڑوں کرپٹ بیورو کریٹس کو گھر بھیج دیا تھا۔ اسی طرح آپ بھی سرسری انکوائریاں کرا کے ان سانپوں کو جلد سے جلد جبری ریٹائر کر دیں۔ عدلیہ آپ کا ساتھ دے گی۔ مندرجہ بالا گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ کیا مرکز میں بھی آپ اسی ٹیم کو آزمائیں گے اور جیسے تیسے اپنی مدت پوری کرنے پر فخر کریں گے؟ فخر تو شاید آپ کر سکیں لیکن پہلی اور آخری مرتبہ، اس کے بعد تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ