khalid shoail

4368 سے کال اور پیسکو کی چپلی

آج موبائل فون پر 4368نمبر سے ایک کال آئی، عام طور پر چھوٹے نمبروں سے کال آئے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ فون کمپنی کی جانب سے ہوگی کسی نئی پراڈکٹ کی فروخت کے چکر میں ہوگی۔ میں نے کال اس توقع پر ریسیو کی کہ ابھی کمپیوٹر پر کوئی خاتون سلام کریں گی لیکن ہوا اس کے برعکس کہ ایک مردانہ آواز آئی ”اسلام علیکم! میں وزیرصحت خیبر پختونخوا تیمورخان جھگڑا بول رہا ہوں۔ کسی کو تیزبخار، خشک کھانسی، چھینک وغیرہ کی علامات ہوں تو 1700 پر ہمیں کال کرسکتا ہے۔ ہم آپ کی بھرپور مدد کریں گے” دو چار جملے سننے کے بعد ہی اندازہ ہوسکا کہ وہ کال ریکارڈڈ تھی منسٹر صاحب اس کال میںکرونا کے بارے میں آگاہی دے رہے تھے اور عوام سے کہہ رہے تھے کہ جب کوئی کرونا کا شکار ہوجائے تو اس نے کیا کرنا ہے اور اہل علاقہ اور اہل خانہ نے کیا کرنا ہے۔ پیغام مختصر مگر جامع اور افادی تھا، یہ پیغام حکومت کی جانب سے عوام کو ایک ہدایت نامہ تھا کہ صوبائی حکومت اور عوام کیسے مل کر اس مصیبت سے جان چھڑا سکتے ہیں۔ اس کال کو کالم کا موضوع بنانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مجھے ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ ہمارے یہاں بھی سمارٹنس آنے لگی ہے۔ موبائل فون اب تو ہر کسی کے پاس ہے، اس میسج کے ریکارڈ کرنے میں منسٹر صاحب کو چند منٹ ہی لگے ہوں گے اور لاکھوں صارفین تک یہ میسج پہنچ گیا ہوگا۔ اب کرونا جیسے معاملات تو ہیں ہی ایسے کہ انہیں نہ تو حکومت اور نہ ہی عوام اکیلے ختم کرسکتے ہیں بلکہ دونوں کی باہمی شراکت سے ہی اسے ختم کیا جاسکے گا۔ دراصل ہم ایک نئی دنیا میں رہ رہے ہیں اور اس نئی دنیا میں گیجڈز کا ایک بہت بڑا رول پیدا ہوچکا ہے۔ پرائیوٹ کمپنیاں اس سے خوب فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ آن لائن شپنگ سے لیکر پیسوں کی ٹرانزیکشن وغیرہ تک اسی موبائل فون سے ممکن ہوچکا ہے لیکن ہمارے یہاں حکومتوں کی جانب سے ان سمارٹ گیجڈ سے فائدہ کم کم ہی اُٹھایا جاتا ہے۔ یہ کال مجھے سمارٹ گورنورنس کی جانب ایک قدم محسوس ہوا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کی سرگرمی حکومتوں کی سنجیدگی کا مظہر ہوتی ہیں کیونکہ عوام کو جب یہ باور ہوجائے کہ حکومت کسی مسئلے کو سنجیدہ لے رہی ہے تو اس مسئلے کو نمٹنے کیلئے عوام میں بھی حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ مسئلہ ہی نہیں رہتا۔ عوام عام طور پر ہر مسئلے کے حوالے سے حکومت کی جانب دیکھتے ہیں۔ اس قسم کے عوامل سے حکومت اور عوام کے درمیان ایک کوارڈی نیشن کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ حکومت اور عوام کا ایک پیج پر آجانا ہی بہت بڑی غنیمت ہے اور قومیں اس قوت سے بڑی سے بڑی جنگیں جیت جایا کرتی ہیں۔
دراصل دنیا اب بدل چکی ہے، روایتی سسٹم کی جگہ ڈیجیٹل سسٹم نے لے لی ہے، عام آدمی کی زندگی کو لے لیں، رابطے کتنے فعال اور طاقتور ہوچکے ہیں، فاصلے کتنے کم ہوگئے ہیں، اب وقت ایسا ہے کہ جو سمارٹ نہ ہوا وہ اس دنیا میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ سوشل میڈیا اور کچھ نہیں تو عام آدمی کو بہت چالاک بنا رہا ہے۔ غیرمحسوس انداز میں بہت سی باتیں اور بہت سی چیزیں ہم بیک وقت سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لوگوں کے مشاہدات، تجربات سن اور سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ باہر کی دنیا کی چکاچوند کے علاوہ وہاں کے لائف سٹائل کو بھی عام آدمی دیکھ اور پرکھ رہا ہے گویا حکومتوں اور اداروں کو بھی ایک قدم آگے آکر سمارٹ ہونا ہوگا ورنہ تنقید ان کا مقدر بنے گی۔ جیسے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر پیسکو کا بجلی کا بل وائرل ہوا کہ جس میں میٹر کی تصویر کی جگہ خود میٹر ریڈر کی چپلی کی تصویر چھپی تھی، گویا سمارٹنس میں بے احتیاطی۔ عام طور پر صارفیں کا گلہ ختم کرنے کیلئے پیسکو میٹر کی تصویر بل پر پرنٹ کرتی ہے تاکہ صارف کو غلط ریڈنگ کا گلہ نہ ہو۔ اب اس وائرل تصویر میں میٹر ریڈر نے غلط تصویر لی اوپر سے بل بنانے والے نے بھی توجہ نہیں دی سو چھوٹی سی غلطی جگ ہنسائی کا باعث بن گئی۔ کوئی دوسرا ادارہ ایسی غلطی کرتا تو معافی کی گنجائش تھی بھی لیکن پیسکو نے لوڈشیڈنگ سے عوام کو اتنا جھلسایا ہے کہ چھوٹی سی غلطی بھی جگ استہزا کا سبب بن گئی۔ خیر پیسکو کی کیا بات ہے، ایک بل 5جون کو آخری تاریخ پر جمع کر کے اگلا حکم نامہ بصورت بل آیا کہ میاں یہ بل 30 جون تک جمع کراؤ ورنہ سرچارج دینا پڑے گا یعنی پچیس دنوں میں دو دو بل جمع کراؤ۔ تنخواہ ایک لو بل دو جمع کراؤ اب چونکہ خود پیسکو کے بھائیوں کے یونٹ معاف ہوتے ہیں سو انہیں کیا درد کا پتہ کہ لوگ بل کیسے جمع کرواتے ہیں، وہ بھی گرمی کے مہینے میں۔ ہائے ٹھنڈی آہیں نکل نکل آتی ہیں، بادشاہ لوگ ہیں پیسکو والے بل میں چپلی بھیج دیں کہ لوڈشیڈنگ کردیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں بادشاہوں کو۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟