p613 50

بلا امتیاز احتساب وقت کی ضرورت ہے

امر واقعہ یہ ہے کہ احتساب کے عمل پر دو آراء ہرگز نہیں۔ مختلف ادوار میں کرپشن کرنے اور اس میں معاونت کرنے والوں کے خلاف قوانین کے مطابق کارروائی اور انصاف کے عمل کے آگے بڑھنے سے ہی انسداد کرپشن کی مہم نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ احتسابی عمل کے یکطرفہ ہونے کی شکایات ہر دور میں سامنے آئیں۔ شکایات کنندگان میں ایک کی رائے ہے کہ دستاویزاتی شہادتوں کے حصول اور تحقیقات مکمل کئے بغیر الزامات کے تحت گرفتاری اور پھر سالہا سال باقی ماندہ عمل مکمل نہ ہونے سے شہری آزادیاں متاثرہوتی ہیں جبکہ دوسری رائے کے حاملین کا موقف ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی صرف اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کی گرفتاریوں اور احتساب پر زور دیتی ہے تاکہ عوام میں اس کی نیک نامی کا چرچا ہو اور رائے عامہ یہ سمجھے کہ سخت گیر احتساب کاعمل جاری ہے۔ نیب سمیت دیگر اداروں کے کردار اور جانبدارانہ طرز عمل پر بھی سوالات ہیں۔ محض غیر جانبداری سے قوانین پر عمل کے اعلانات یا بلند و بانگ دعوئوں سے نیک نامی کا حصول محض خواب ہے’ سنجیدہ فہم حلقوں کے ساتھ قانون کے شعبہ سے منسلک سینئر قانون دان بھی ایک نہیں درجنوں معاملات کے حوالے سے احتسابی عمل کے غیر شفاف اور جانبدارانہ ہونے پر سوالات اٹھا رہے ہیں ان حالات میں نیب اور دیگراداروں کے ذمہ داران کو ٹھنڈے دل سے اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ ان اداروں کی بہتر کارکردگی کے باوجود قانونی اور عوامی حلقوں میں مثبت کے مقابلہ میں منفی آراء زیادہ کیوں ہیں؟۔ غیر جانبدارانہ احتساب اس لئے بھی ضروری ہے کہ گزشتہ برس وفاقی وزارت صحت کی طرف سے ادویہ ساز کمپنیوں کو15سے 19فیصد قیمتوں میں اضافے کی اجازت دی گئی’ نوٹیفیکیشن بھی اس شرح کے حوالے سے جاری ہوا لیکن ادویہ ساز اداروں نے ادویات کی قیمتوں میں 200فیصد تک اضافہ کردیا شدید عوامی رد عمل کے پیش نظر وزیر اعظم نے وفاقی وزیر صحت کو ان کے منصب سے الگ کردیا مگر ایک سال گزرنے کے باوجود نیب نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام کیا نا ہی لوٹی گئی رقم کی واپسی کے لئے کوئی کارروائی۔ احتساب کے امتیازی ہونے کے بارے میں شکایات کرنے والوں کے موقف کو یہ کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ محض حزب ا ختلاف اور اس کے ہمنوائوں کا پروپیگنڈہ ہے’ جن معاملات کی طرف نیب کو عوامی و سیاسی حلقوں کی طرف سے متوجہ کیا جاتا رہا اتفاق سے ان کا تعلق حکمران جماعت کی شخصیات سے ہے بلا امتیاز احتساب کی اہمیت ہمیشہ دو چند رہی اگلے روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں اس امر سے اتفاق کیا کہ نیب کو مالم جبہ’ بلین ٹری اور بی آر ٹی جیسے منصوبوں کی تحقیقات کرنی چاہئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان منصوبوں میں کرپشن کے الزامات کی باز گشت پچھلے کئی سالوں سے سنائی دے رہی ہے خود نیب کے چیر مین کئی مواقع پر اس حوالے سے دعوے بھی کرتے دکھائی دئیے لیکن باتیں’ دعوے اور عمل بیانات تک ہی محدود ہیں۔ پچھلے چند ماہ کے دوران موجودہ حکومت سے تعلق رکھنے والی بعض شخصیات کرپشن کے الزامات کی زد میں آئیں الزام درست ہیں یا غلط اس کا فیصلہ تو تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ ان معاملات سے نیب کی چشم پوشی نے حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا مرکزی نکتہ بلا امتیاز احتساب اور کرپشن کا خاتمہ رہا۔ اندریں حالات یہ بہت ضروری ہے کہ نیب سمیت دیگر ادارے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے کسی سے امتیاز برتیں اور نا ہی ایسا تاثر ابھرنے دیں جس سے اولاً تو احتساب کے عمل پر سوالات اٹھیں اور ثانیاً ان کی وجہ سے حکومت پر کسی کو حرف گیری کاموقع ملے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نیب کی ڈھل مل پالیسی بعض معاملات میں قوانین کو نظر انداز کرنے اور بعض شکایات کا نوٹس نہ لینے کی وجہ سے نہ صرف نیب کے ادارے پر تحفظات بڑھ رہے ہیں بلکہ اس سے حکومت کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ یہاں یہ امر بھی بہر طور مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے احتساب کے دائرے میں آنے والی شخصیات وہ کوئی بھی ہوں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی بہت ضروری ہے تاکہ کرپشن کے خاتمے کی شروعات ہوسکیں۔ یہ بھی بجا ہے کہ محض حکومت کی خواہش پر اپوزیشن اور اپوزیشن کی خواہش پر حکومتی شخصیات کو احتساب کے نام پر رگڑا لگانے کاکوئی فائدہ نہیں ٹھوس شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ ہوئی کاروائی سے نہ صرف نیب کے دامن پر لگے داغ دھل سکیں گے بلکہ عوام کا اعتماد بھی بحال ہوگا۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں احتسابی عمل ہمیشہ متنازعہ رہا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نیب’ اینٹی کرپشن یا ایف آئی اے نے کبھی موثر حکمت عملی اپنائی نا اس امر کو یقینی بنایا کہ جن معاملات کی تحقیقات شروع ہوئی ہیں ان کے حوالے سے قانون اپناراستہ بنائے۔ کرپشن کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ کرپشن صرف مالی بے ضابطگی ہی نہیں بلکہ ایسے فیصلے جن سے کسی کو فائدہ پہنچانا یا کسی حوالے سے چشم پوشی کرنا یہ بھی کرپشن کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ احتساب کے بلا امتیاز نہ ہونے اور دیگر چند معاملات کے حوالے سے اٹھتے سوالات کاجواب دینے کے ساتھ نیب سمیت دیگر اداروں کو اپنے فرائض اس طور بجا لانے ہوں گے کہ ان پر رائے عامہ کا اعتماد بحال ہو۔ امید واثق ہے کہ اگلے روز صدر مملکت نے جن منصوبوں کے حوالے سے تحقیقات کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے نیب ان سے صرف نظر کرنے کی بجائے تحقیقات کے عمل کو آگے بڑھائے گا تاکہ بلا امتیاز احتساب کا وعدہ پورا ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟