3 127

کچھ یادیں’ افسانے اور حقائق

آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا’ اپنے 12اکتوبر 2019ء کے کالم’ جس کی سرخی تھی ”سماوار ‘پیندے والی چینکیں اور قہوہ خانے” گزشتہ روز فیس بک آرکائیوز میں تلاش کروا کر اسلئے یادیں تازہ کرنے کی کوشش کی کہ چار پانچ روز پہلے ایک صاحب نے قدیم دور کی چینک (چائے دانی) کی تصویر پوسٹ کرکے اس پر لوگوں کی آراء طلب کی تھیں تاہم جو تبصرے سامنے آئے وہ انتہائی کمزور معلومات پر مبنی تھے’ میرے ایک کرم فرما اقبال سکندر نے اس حوالے سے گوگل کو سرچ کرکے اصل معلومات سامنے لانے کی تجویز دی تھی’ تاہم چونکہ محولہ بالا کالم میں کچھ روایتی معلومات میں پہلے ہی سامنے لا چکا تھا اسلئے نہ صرف اس کالم کو دوبارہ پیش کر دیا بلکہ کالم کے آخر میں یہ گزارش بھی کر چکا تھا کہ اس موضوع پر مزید لکھنے کی بھی گنجائش ہے تاہم دیگر مسائل اور موضوعات پر توجہ دینے کی وجہ سے بھول ہی گیا تھا کہ متعلقہ موضوع پر اپنے وعدے کو پورا نہیں کر سکا تھا’ بہرحال دیرآید درست آید ہی سہی’ اب اس سلسلے کو مزید ایک دو کالموں کے ذریعے تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں’ یعنی بقول شاعر
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کیلئے
اور واقعی یہ موضوع ایک بحر بیکراں کی طرح ہے جس کے اندر سے کئی شاخیں پھوٹ کر ثقافتی اور تہذیبی اقدار کی نشانیوں کے طور پر سامنے آسکتی ہیں یعنی مذکورہ موضوع کیساتھ ساتھ دیگر کئی موضوعات بھی زیربحث آسکتے ہیں جبکہ فی الحال گزشتہ کالم کے حوالے سے نامکمل معلومات میں کچھ اضافہ ضروری ہے اور چونکہ اس ضمن میں میری معلومات بالکل ذاتی نوعیت کی ہیں یعنی ہوا کچھ یوں کہ پشاور کے مرکزی مقام چوک یاد گار سے ملحقہ بازار ابریشم گراں میں والد صاحب طویل عرصے تک دکان کیا کرتے تھے جس میں وقتاً فوقتاً حالات کے مطابق مختلف کاروبار ہوتا رہا اور ایک وقت تھا کہ قراقلی ٹوپیوں اور روسی کراکری کی خرید وفروخت میں والد صاحب مصروف رہے اس لئے جو معلومات ہم تک پہنچتی رہیں ان پر تکیہ کرتے ہوئے چند سطور لکھنے سے شاید ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہو جائے جو اس بارے میں نہیں جانتے یا پھر بہت کم جانتے ہیں لیکن اس سے پہلے وکی پیڈیا سے حاصل کردہ کچھ معلومات پہنچانا بھی آپ تک ضروری ہے تاکہ اصل پس منظر بھی سامنے آسکے۔ اگرچہ وکی پیڈیا سے حاصل کردہ معلومات بھی صرف گردنر جیسی کراکری کے حوالے سے ہیں اور وہ بھی سرسری سی ہیں ‘ ان معلومات کے مطابق گردنر پر وسلین فیکٹری ایک انگریز بنکار فرانسس گردنر نے 1766ء میں قائم کی تھی جبکہ اس سے پہلے روس میں امپریل پروسلین فیکٹری 1744ء سے سرکاری سرپرستی میں قائم تھی جو روسی حکمران طبقات’ جاگیر داروں اور امراء ورئوسا کیلئے ظروف سازی کا کام کرتی تھی۔ تاہم گردنر کی قائم کردہ ظروف سازی کی فیکٹری نے اس کاروبار میں جدت اور نفاست قائم کرکے روس کے شاہی خاندان اور اعلیٰ طبقات کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ بعد میں گردنر ظروف سازی کی اس فیکٹری کو (دستیاب معلومات کے مطابق) روسی انقلاب کے نتیجے میں قومیا لیا گیا’ مگر نہ صرف گردنر بلکہ امپریل پروسلین فیکٹری کا انقلابیوں نے جو حشر کیا اس کی جھلک ایران کے سابقہ شہنشاہ کا تختہ اُلٹ جانے کے بعد ایران میں قائم پلاسٹک انڈسٹری کی بربادی میں بھی دکھائی دی’ وہاں سب سے اعلیٰ ملامین پلاسٹک کی فیکٹری شہنشاہ کی بہن شہزادی اشرف پہلوی کی تھی’ پارس کے نام سے ملامین کے برتن اتنے خوبصورت اور شاندار ہوتے تھے کہ یہ بھی ایران کے شاہی خاندان اور اعلیٰ طبقات کے علاوہ بیرون دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے اور ان کی خاصیت یہ بھی تھی کہ باوجود پلاسٹک کے برتن ہونے کے انہیں مائیکرو ویو اوون میں بھی بلا خوف و خطر رکھ کر کھانے پینے کی اشیاء گرم کی جاسکتی تھیں۔ انقلاب ایران کے نتیجے میں وہاں پلاسٹک انڈسٹری کو مبینہ طور پر تباہی سے دوچار کردیا گیا’ خاص طور پر شہزادی
اشرف کی پارس فیکٹری کی تو اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ خیر یہ تو چند جملہ ہائے معترضہ تھے اصل معاملہ تو گردنر پرو سلین فیکٹری کا تھا جسے انقلاب روس نے تہس نہس کر دیا اور جس دوسری یعنی امپریل پروسلین فیکٹری کا تعلق ہے تو اس میں بننے والے ظروف پر گردیوسف کا نام لکھا ہوتا۔ ان دونوں فیکٹریوں میں بننے والے برتنوں کی ایک خاص خصوصیت تھی۔ ان ظروف کیلئے جو میٹریل استعمال کیا جاتا تھا اس میں خاص کیمیکلز کی آمیزش کی جاتی اور روایت کے مطابق اگر ان میں زہریلا کھانا یا مشروبات ڈال کر شاہی خاندان’ امراء یا رئوسا میں سے کسی کو سازش کے تحت قتل کی منصوبہ بندی کی جاتی تو اشیائے خورد ونوش میں ملے ہوئے زہر کی وجہ سے یہ برتن ٹوٹ جاتے’ اسی وجہ سے روس کے اعلیٰ طبقات میں ان برتنوں کو پذیرائی ملی’ حالانکہ اگرصرف نفاست اور خوبصورتی کے حوالے سے پرکھا جائے تو یورپ کے دیگر ملکوں میں بننے والے ظروف ان سے بھی زیادہ دلکش اور جاذب نظر تھے’ خاص طور پر بلغاریہ اور بلجیم کے برتن جو دنیا بھر میں مشہور تھے’ بلجیم کی بنی ہوئی قہوے کی پیالیوں کا ہمارے ہاں استعمال بہت زیادہ تھا جنہیں مقامی طور پر ”بلغمے پیالے” (بلجیم کے لفظ کی بگڑی ہوئی صورت) کہتے تھے۔ دو دہائیاں یا کچھ زیادہ پہلے ہمارے ہاں شیشے کے ظروف بنانے والی ایک فیکٹری کا نعرہ بھی کیا خوب تھا کہ
”ہم نے شیشے کو ستاروں کی چمک دیدی ہے”۔
(جاری)

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل