mushtaq shabab 17

تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع

بات سے بات نکلتی چلی جارہی ہے، گزشتہ کالم مطبوعہ 9جولائی کا اختتام ان الفاظ پر ہوا تھا کہ ”ہم نے شیشے کو ستاروں کی زباں دیدی ہے” اور واقعی جو برتن موجودہ دور میں شیشے کے بنائے جا رہے ہیں متعلقہ فیکٹری نے عام یعنی دوسری فیکٹریوں کے مقابلے میں سیٹ آف دی آرٹ طرز کے نہایت چمکدار، دیدہ زیب اور خوبصورت برتن متعارف کرا کر شیشے کی ظروف سازی کو ایک نئی جہت سے آشنا کر دیا تھا جبکہ ریڈیو پاکستان کے سابق (مرحوم) سٹیشن ڈائریکٹر سید حمید اصغر شاہ نے اس حوالے سے جو ذاتی معلومات بہم پہنچائی تھیں ان کے مطابق محولہ برتن بنانے والے کارخانے میں ان کے ایک قریبی عزیز اور ایک عرب شیخ کی ساجھے داری تھی، جو عام طور پر تو الگ جبکہ عرب اور خلیجی ممالک کے علاوہ بعض مغربی ممالک کو انتہائی مہنگے شیشے کے وہ برتن برآمد کرتے تھے جن میں شیشے کے اندر نقش ونگار کیلئے سونے کے تاراستعمال کئے جاتے، یوں ان کی قیمت پاکستان کے عوام کیلئے ناقابل برداشت تھی اسلئے مقامی مارکیٹ میں یہ بیش قیمت برتن سپلائی نہیں کئے جاتے۔بقول احمد فراز
تو اپنی شیشہ گری کا ہنر نہ کر ضائع
میں آئینہ ہوں مجھے ٹوٹنے کی عادت ہے
اگرچہ بات سوویت یونین کے قیام سے پہلے زار روس کے دور میں قائم دو کارخانوں یعنی امپیریل پروسلین فیکٹری اور اس کے مقابلے میں ایک انگریز بنکار فرانسس گردنر(یہ لفظ انگریزی زبان کے حوالے سے گارڈنر ہو سکتا ہے جو مقامی زبان میں گردنر بن گیا ہو) کے بارے میں ہورہی تھی جبکہ دونوں فیکٹریوں میں اپنے دور کے لحاظ سے بہترین کراکری بنائی جاتی تھی اور انقلاب روس یعنی کمیونسٹ انقلاب کے نتیجے میں ان دونوں فیکٹریوں کا حشر نشر کر دیا گیا تھا، دراصل کسی بھی ملک میں آنے والے انقلاب کیساتھ اگر کسی حد تک اچھائی کے پہلو شامل ہوتے ہیں تو غصے سے بپھرے ہوئے عام انقلابیوں کے ہاتھوں آنے والی تباہی زیادہ ہوتی ہے، اکثر ملکوں میں جہاں عوامی سطح پر انقلاب برپا ہوئے، تباہی کے آثار بعد میں نمایاں ہو کر سامنے آئے، جیسے کہ انقلاب فرانس میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں، یہی آثار روس کے اندر برپا ہونے والے کمیونسٹ انقلاب میں دیکھے جا سکتے ہیں، حالانکہ گردنر کمپنی اور امپریل کمپنی کو اگر کمیونسٹ انقلابی نقصان نہ پہنچاتے تو آج یہ صنعت ترقی کے مدارج طے کر تے ہوئے نہ جانے کہاں پہنچ چکی ہوتی تاہم پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ”جنگ کے کتنے خصم ہوتے ہیں؟” اس حوالے سے دیکھا جائے تو انقلابی رہنمائوں کے ہاتھوں سے اختیار غصے میں بپھرے ہوئے بسا اوقات (جاہل) انقلابیوں کو منتقل ہو جاتا ہے اور پھر وہ سب کچھ تہس نہس کر دیتے ہیں۔ روس میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان میں پیپلزپارٹی نے دوسری طرح کا حشر یہاں انڈسٹری وغیرہ سے کیا کہ نہ صرف اہم صنعتوں اور بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور دیگر اہم شعبوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا،تاہم معاملہ صرف سرکاری تحویل میں لینے تک محدود رہتا تو شاید پھر بھی کوئی مسئلہ نہ تھا مگر ان تمام اداروں وغیرہ پر پیپلز پارٹی کے جیالوں کو مسلط کر کے ان کا جو حشر نشر کیا گیا یہ ایک غلط پالیسی تھی جس کا نتیجہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔بقول شاعر
پتوں کا رنگ خوف سے پہلے ہی زرد تھا
ظالم ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آگئی
سقوط ڈھاکہ سے ایک اور اہم انڈسٹری یاد آگئی ہے، تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو مغربی اقوام خصوصاً انگریز، فرانسیسی اور ولندیزی (ڈچ) ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہتے تھے اور ان کی خواہش اور کوشش تھی کہ وہ ہندوستان کیساتھ تجارت بڑھا کر یہاں سے دولت کے انبار سمیٹ کر لے جائیں، اس ضمن میں ہندوستان کے مختلف ساحلی علاقوں کے ذریعے ان ممالک کے بحری بیڑے آتے جاتے رہے اور اثر ورسوخ سے کام لیکر ان علاقوں میں تجارتی کوٹھیاں بنانے سے آغاز کرتے ہوئے یہ تینوں مغربی اقوام آپس میں اُلجھ پڑی تھیں، مقامی سطح پر افواج بھرتی کر کے ایک دوسرے کو بھگانے اور تمام تر تجارت پر قبضے کی کوشش میں پہلے ولندیزی (ڈچ) بھاگ گئے جبکہ فرانسیسیوں اور انگریزوں کے مابین مناقشت طول پکڑ گئی تھی جس میں بالآخر انگریزوں نے فرانسیسیوں کو بھی شکست سے دوچار کر کے نہ صرف پوری تجارت پر قبضہ جما لیا بلکہ بعد میں پورے ہندوستان کو غلام بنا کر اس سونے کی چڑیا کو نوچنا شروع کر دیا، ان دنوں ڈھاکہ میں ململ کی دیسی طور پر قائم مقامی صنعت کے بڑے چرچے تھے اور چند محضوص خاندان ہی تھے جو یہ ململ بنانے کا فن جانتے تھے، اس ململ کی خصوصیت یہ تھی کہ چالیس گز ململ کا ایک پورا تھان انگوٹھی (انگشتری) کے چھلے (سوراخ) میں سے گزر جاتا، انگریزوں نے اسے اپنے ہاں پارچہ بانی (ٹیکسٹائل) انڈسٹری کیلئے ایک خطرناک چیلنج سمجھتے ہوئے، اتنی نازک مزاج ململ بنانے والوں کے ہاتھ ایک روایت کے مطابق کاٹ کراس فن کو آنے والی نسلوں تک منتقلی کا راستہ روک دیا، یوں پارچہ بانی کی یہ صنعت اپنی موت آپ مرگئی۔ بقول فیض احمد فیض
حضوریار ہوئی دفتر جنوں کی طلب
گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے
(جاری ہے)

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان