logo 28

مشرقیات

محمود غزنوی بادشاہ تھا، راتوں کو نکلتا تھا، رعایا کی خبر کیلئے جاتا تھا ۔ ایک رات وہ شہر سے باہر جنگل میں چلا گیا، وہاں دیکھا کہ چھ سات آدمی بیٹھے ہیں، اصل میں وہ چوروں کی ٹولی تھی اور وہ لوگ ڈاکہ ڈالنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ محمود لباس بدل کر گئے تھے’ کہا میں بھی تمہاری جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ چوروں نے کہا کہ اچھا اچھا بیٹھ جائو’ تمہیں کوئی کمال آتا ہے؟ محمود بہت عقل مند تھا’ کہا پہلے تم اپنے کمالات بتائو’ پھر میں اپنا کمال بتاتا ہوں’ تمہارے پاس کیا کیا ہنر ہے بتائو۔ ایک آدمی بولا میرے ہاتھوں میں اتنی طاقت ہے کہ سخت سے سخت دیوار کو توڑ سکتا ہوں۔ ایک نے کہا کہ میرے اندر وہ کمال ہے کہ مٹی سونگھ کر بتادوں گا کہ کہاں خزانہ چھپا ہے۔ تیسرے شخص نے کہا کہ میں کتوں کی آواز سے معلوم کرلیتا ہوں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں’ پھر چوتھے نے اپنے کمال کے بارے میں بتایا کہ میں رات کے اندھیرے میں ایسے دیکھ لیتا ہوں جیسے دن میں اور میری آنکھ خطا نہیں کھا سکتی تو محمود غزنوی بتانے لگے کہ میری داڑھی میں وہ کمال ہے کہ سخت سے سخت مجرم کو جب سزا ہوجاتی ہے تو میری داڑھی ہل جائے تو وہ بچ جاتا ہے اور اس کی سزا ختم ہو جاتی ہے۔ سارے چور خوشی سے چلانے لگے کہ ارے یہ تو بڑا کمال کا آدمی ہے’ ہم کو ا یسے ہی آدمی کی تلاش تھی’ ان کو ساتھ میں رکھ لیا اور طے ہوا کہ آج بادشاہ کے محل میں ڈاکہ ڈالیں گے۔ محمود نے کہا ضرورت پر تم سب سے ملنا مشکل ہوگا’ اس لئے تم لوگوں کا پتہ لے لوں تو ٹھیک رہے گا’ سب نے اپنا اپنا پتہ دے دیا۔ اب بادشاہ کے محل میں داخل ہوئے’ وہاں کتے کا بھوکنا شروع ہوا تو کتے کی آواز سمجھنے والا چور کہنے لگا کہ یہ کہتا ہے کہ تمہارے ساتھ بادشاہ ہے۔ پھر اب کیا کرنا ہے؟ کہا جلدی چلو۔ وہ لوگ محل میں چلے گئے، دیوار توڑ کر اندر داخل ہوگئے۔ اب مٹی سونگھ کر بتانے والا کہنے لگا کہ اس کمرے میں سونا چاندی ہے’ اس کمرے میں خزانہ ہے، اس کے بعد جتنا لوٹنا تھا’ لوٹ لئے اور بھاگ گئے۔ سلطان محمود ان سے نظریں بچا کر محل میں آگئے۔ ان کے پاس سب کے پتے تو تھے ہی۔ سب کے نام وارنٹ بھیج دئیے اور سب کو بادشاہ کے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔ وہ شخص جس نے کہا کہ میں اندھیرے میں بھی ایسے ہی دیکھتا ہوں جیسے دن میں، اس نے کہا یہ تو وہی شخص ہے جو رات میں ہمارے ساتھ آیا تھا’ یہ تو بادشاہ نکلا’ یہ کیا ہوا؟ بادشاہ نے پوچھتا اب تک کتنے لوگوں کامال غصب کیا؟ یہ سب پوچھ تاچھ کے بعد حکم دیا کہ ان سب کو سولی پر چڑھا دو۔ اس میں ایک عقلمند شخص تھا’ کہنے لگا’ رات آپ نے ایک بات کہی تھی کہ تختہ دار پر جب کوئی چڑھ جاتا ہے’ اگر اس وقت میری داڑھی ہل گئی تو وہ آزاد ہو جاتا ہے’ وہ کرشمہ ذرا بتائو کیسا ہے؟ اب بادشاہ کو ہنسی آگئی’ کہنے لگا جو کچھ ہونا تھا ہوگیا’ اب ایسا مت کرنا’ جائو تم لوگوں کو معاف کردیا۔
(ماخوذ ازسوانح حیات حضرت حاذق الامتہ صفحہ262:)

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی