logo 28

پی آئی اے کی بندش کا خطرہ

یورپ کے بعد امریکہ کی جانب سے بھی پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی قومی فضائی کمپنی اور شہری ہوابازی کیلئے مزید دھچکا ہے جس کے بعد اس طرح کے مزید امکانات کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا جس کے نتیجے میں پی آئی اے کی بندش کا خطرہ ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان سے تاریخ میں پہلی بار امریکہ کیلئے براہ راست فلائٹس حال ہی میں شروع کی گئی تھیں اور امریکی ایوی ایشن نے طویل گفت وشنید کے بعد پی آئی اے کو براہ راست فلائٹس آپریٹ کرنے کی اجازت دی تھی۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ پابندی کتنے عرصے کیلئے لگائی گئی ہے۔ پی آئی اے کے حوالے سے عالمی طور پر منفی تاثراس وقت سے جاری ہے جب22مئی کو پی آئی اے کی فلائٹ پی کے8303کو کراچی میں پیش آنے والے حادثے کی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد”جعلی لائسنس ہولڈر پائلٹس”کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد سے قومی ایئر لائن کے محفوظ ہونے کے حوالے سے سوالات اُٹھائے گئے۔ طیاروں کے حادثات کے حوالے سے پی آئی اے کے حادثات کی شرح سب سے بڑھ چکی ہے، ہر عشرے میں ایک بڑا فضائی حادثہ طیارے کی تباہی اور مسافروں کی اموات سامنے آتی ہیں۔ اس قسم کے واقعات کی تحقیقات اور ذمہ داری کے ٹھوس تعین اور آئندہ کیلئے اس کی روک تھام کے حوالے سے عالمی سطح پر قابل قبول اقدامات سامنے نہیں آتے بلکہ ایک ہی رپورٹ کو ردوبدل کیساتھ جاری کرنے کا عمل دہرانے کا گمان گزرتا ہے۔ قومی فضائی کمپنی ان دنوں تاریخ کے جس بدترین بحران سے گزر رہی ہے اور اس کا خسارہ جس انتہا کو پہنچا ہے، وہ کمپنی کی بقا کا سوال ہے۔ پی آئی اے کو اس حال تک لانے کی ذمہ داری سابقہ وموجودہ تمام حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اب اس کے احیاء کی واحد صورت یہی نظر آتی ہے کہ پی آئی اے کو پیشہ وارانہ دیانت کے حامل ماہرین کی مشاورت اور مدد سے چلانے کی کوشش کی جائے۔ سیاسی بنیادوں پر اور میرٹ سے ہٹ کر ہونے والے تمام ملازمین کو فارغ کیاجائے، پی آئی اے کے ملک بھر میں بلاوجہ کے شاندار عمارتوں میں چلنے والے دفاتر محدود کئے جائیں اور ان دفاتر کو کرایہ پر دیا جائے۔ عملہ کم کر کے ٹریول ایجنٹوں اور پی ایس اے کو مارکیٹنگ کا عمل سونپ دیا جائے، پی آئی اے کو شاہانہ بنیادوں پر چلانے کی بجائے دنیا کی بڑی ایئر لائنز میں مروج نظام کی طرح اصلاحات کئے جائیں۔ بیرون ملک املاک اورشاندار دفاتر کو کرایہ پر دیکر اور غیرضروری عملہ کم کر کے زرمبادلہ کی بچت کی جائے، فی طیارہ عملہ کی تعداد بین الاقوامی شرح کے مطابق کی جائے اور غیرضروری عملہ فارغ کیا جائے، پی آئی اے میں اعلیٰ انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جائیں، حسابات کا مکمل آڈٹ کر کے ماضی میں ہونے والی بے قاعدگیوں کے ذمہ داروں سے وصولیاں کی جائیں، ملکی فضائی کمپنی کے وقار اور اس پر اعتماد کی بحالی کیلئے اندرون ملک تحفظ ومعیار کا ایسا نظام متعارف کرایا جائے کہ ادارے کی ساکھ بحال ہونے لگے۔ اس کیساتھ ساتھ ملک کے پرچم بردار کمپنی کے حوالے سے عالمی اداروں کے تحفظات اور اعتراضات کے خاتمے پر توجہ دی جائے اور کوشش کی جائے کہ پابندیوں میں توسیع نہ ہو جس کا تقاضا ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر ایسے اقدامات ہوں جو عالمی طور پر قابل قبول ہوں۔

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے