4 126

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کل صبح آنکھ کھلی تو بارش چھاجوں برس رہی تھی، ہمیں اپنے کمرے سے صحن میں بارش کے برسنے کا منظر بچپن سے اچھا لگتا ہے۔ پشاور میں بارشیں کم ہوتی ہیں، کہتے ہیں کہ پشاور مون سون ہواؤں کی زد میں نہیں آتا اس لئے یہاں بارش کبھی کبھار اس وقت ہوتی ہے جب مون سون ہوا کا کوئی باغی وسرکش جھونکا جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے ساری حدود پھلانگتا ہوا پشاور کی فضاؤں میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہاں وہ ساون نہیں ہوتا جس کے چرچے ہندو پاک کے بہت سے علاقوں میں ہوتے ہیں، جس پر گیت لکھے جاتے ہیں، باغوں میں جھولے ڈالے جاتے ہیں، ساون آئے ساون جائے کے مصرعے الاپے جاتے ہیں۔ پشاور میں ہونے والی بارشیں پشاور کے باسیوں کو مایوس ہی کرتی ہیں اور وہ بیچارے یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اب بارش کیلئے دعائیں نہ ہی مانگی جائیں تو بہتر ہے۔ بارش کے بعد کی صورتحال دیکھ کر ہمیں فراز کے مشہور ومعروف شعر کی سمجھ بھی آگئی۔
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر
پچھلے برس پشاور پر برسنے والی موسلا دھار بارشوں نے بہت سی چھتیں زمین بوس کر دی تھیں، ان چھتوں کے نیچے سونے والے بدنصیب ایسے سوئے کہ پھر ان کو اُٹھنا نصیب نہ ہوا۔ چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں اپنے سارے درد وغم اس دنیا میں چھوڑ کر ان وادیوں میں جا بسے جہاں جانے والوں کی پھر کوئی خبر نہیں آتی۔ پشاور کے باسیوں کو پہلی مرتبہ پتہ چلا کہ ان کے شہر میں نکاسی آب کا کوئی نظام ہی نہیں اور اگر کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا تو اب وہ نیست ونابود ہوچکا ہے۔ پانی کی وہ تمام گزر گاہیں جو اسے اپنے دامن میں پناہ دیا کرتی تھیں اب اپنا دامن سمیٹ چکی ہیں، کوڑا کرکٹ سے بھرے ہوئے شاپرز ان تمام راستوں کو بند کرچکے ہیں جہاں سے کبھی پانی گزرا کرتا تھا۔ زمین کے نیچے سے گزرنے والے نکاسی آب کے سارے نالے بند ہوچکے ہیں، جو ہاتھ ان نالوں کو ہمیشہ کھلا رکھا کرتے تھے وہ دوسرے کاموں میں مصروف ہو چکے ہیں۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے اہلکار کیا نالے صاف کیا کرتے ہیں؟ ان کے سرپرست ان کا بڑا خیال رکھتے ہیں اس لئے وہ افسران بالا کو کب خاطر میں لاتے ہیں اور افسران بالا عوامی مسائل کو کب خاطر میں لاتے ہیں۔ ان کی اپنی رہائش تو پوش علاقوں میں ہوتی ہے۔ یہ وہ علاقے ہیں جہاں کوئی نالی نظر نہیں آتی، کوڑے کرکٹ کے بڑے بڑے ڈھیر نظر نہیں آتے، جہاں تک ہمارے عوامی نمائندوں کا تعلق ہے تو وہ بھی اپنے قدیمی گھر چھوڑ کر ان علاقوں میں جابسے ہیں جہاں سے ان کی کوئی خبر نہیں آتی اور اگر انہیں کبھی اندرون شہر آنا پڑ جائے تو ان کے آنے سے پہلے علاقے کو نئی نویلی دلہن کی طرح سجا دیا جاتا ہے۔ خاکروب صفائیاں کرتے نظر آتے ہیں، چھڑکاؤ کرنے والی گاڑیاں تھوڑی تھوڑی دیر بعد سڑکوں پر پانی چھڑک کر فضا کی آلودگی ختم کرتی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے میاں جی کہتے ہیں کہ یار دل چاہتا ہے کہ وزیر صاحبان روز اس طرف آیا کریں لیکن یہ دعا اس لئے نہیں مانگ سکتے کہ ان کے آنے سے ٹریفک کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ کسی امریکی نے کہا تھا کہ جب امریکہ میں بارش ہوتی ہے تو تھوڑی دیر بعد پانی غائب ہوجاتا ہے اس کی بات سن کر کسی ستم ظریف نے کہا کہ جب پشاور میں بارش ہوتی ہے تو سڑکیں غائب ہوجاتی ہیں۔ کوہاٹی چوک، قصہ خوانی بازار، خیبر بازار، نمکمنڈی، گنج گیٹ، لاہوری گیٹ اور اسی طرح دوسرے بہت سے علاقے ہیں جہاں بارش کے بعد زمین کئی کئی دنوں تک نظر نہیں آتی۔ جن قوموں نے جدید خطوط پر پانی کی نکاسی کا انتظام کر رکھا ہے ان کیلئے بارش ہمیشہ سے رحمت بن کر آتی ہے، وہ بارش کیساتھ رومانس کرتے ہیں، انہیں بارش کا نظارہ ایک خوبصورت تصوراتی دنیا میں لے جاتا ہے۔ مشہور ناولسٹ ڈگلس ایک جگہ لکھتا ہے کہ بارش کا بھرپور نظارہ مجھے یہ احساس دلاتا ہے کہ میں محفوظ ہوں۔ میں نے بارش کو ہمیشہ اس نظر سے دیکھا ہے کہ یہ پریشانیوں کو ختم کرنیوالی ہے۔ بارش کا نظارہ دیکھتے ہی ایک گرماگرم کمبل ذہن میں آجاتا ہے اس کیساتھ سکون کا ایک نہ ختم ہونیوالا احساس وابستہ ہے۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم