2 225

تسلسل سے گریز کی مجبوری

شومئی قسمت شاید اسے ہی کہتے ہیں کہ گزشتہ دو کالموں میں ایک مزید پرانے کالم کے حوالے سے یادوں کی کہکشاں سجانے اور اسے جاری رکھنے کی جو سوچ اپنائی تھی اسے تازہ حالات نے ایک بار پھر وقتی طور پر بریک یوں لگا دی ہے کہ بعض مسائل نے جس طرح سر اُٹھا لیا ہے ان پر تبصرہ کئے بناء ان سے آنکھیں بند کئے گزرنا ممکن ہی نہیں۔ مرزا محمود سرحدی مرحوم نے بھی تو کہا تھا
جو بھی ملتا ہے مجھ سے کہتا ہے
تازہ قطعات سننا چاہتا ہوں
ایسا کوئی نہیں ہے جو یہ کہے
تیرے حالات سننا چاہتا ہوں
اب جن حالات پر تبصرہ مقصود ہے ان میں پہلا اس وقت سب سے اہم یوں ہے کہ اس سے پورا ملک متاثر ہو کر پریشان بھی ہے یعنی گرمی کی اس شدت میں گزشتہ برسوں کی طرح بجلی نے عوام کا جو حشر کر رکھا ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ کراچی میں کے الیکٹرک نے جو حشرنشر کر رکھا ہے اس پر اہل کراچی نہ صرف نوحہ کناں ہیں بلکہ احتجاج کرتے ہوئے غوغا آرائی بھی کر رہے ہیں۔ نہ صرف ایم کیو ایم پاکستان اور پی ٹی آئی کے لیڈروں اور کارکنوں نے احتجاج کیا ہے بلکہ جماعت اسلامی کے تحت شہر بھر میں درجنوں مقامات پر احتجاجی اجتماعات منعقد کئے گئے اور حکومت کو صورتحال کی درستی کیلئے تین دن کا الٹی میٹم بھی دیا گیا جبکہ وفاقی وزیر اسد عمر نے بھی ایک احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ آج اتوار (جب یہ سطور تحریر کی جا رہی ہیں) سے ختم کرنے کا وعدہ کیا، سو دیکھتے ہیں کہ یہ وعدہ وفا ہوتا ہے یا پھر اس پر بھی (پارٹی کی روایت کے مطابق) ایک اور یوٹرن کی نوبت آتی ہے۔ ادھر پشاور میں بھی غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ میں حددرجہ اضافہ ہوگیا ہے اور اخباری خبروں کے مطابق ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی بجلی بندش نے عوام کو زچ کردیا ہے مگر اخباری اطلاعات کے علی الرغم حقیقت یہ ہے کہ ہر گھنٹے بعد ایک نہیں بلکہ دو گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا عملی ”تجربہ” ہو رہا ہے۔ یہ نظارہ خود ہم گلبہار جیسے علاقے میں رہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں حالانکہ گل بہار بھی ان علاقوں میں شامل ہے جہاں کے لوگ باقاعدگی کیساتھ بل ادا کرتے ہیں اور یہ جو پیسکو کے ہمارے کرمفرما اعلان پہ اعلان کر رہے ہیں کہ کہیں غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی بلکہ ضروری مرمت کی وجہ سے بجلی بند کی جا رہی ہے تو اس مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے صرف اتنی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ حضور یہ ضروری مرمت کیا رات کے اوقات میں بھی ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو ہم خاموش ہو جاتے ہیں اور اگر نہیں (جو کہ یقینا نہیں ہی ہے) تو پھر رات گیارہ ساڑھے گیارہ بجے کے بعد دو دو گھنٹے کی بجلی بندش وہ بھی غیر اعلانیہ کس بات کی سزا کے طور پر کی جارہی ہے۔ حیرت تو اس بات پر بھی ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر ٹکر کی صورت چلنے والی ان اطلاعات کے بعد کہ اس وقت ملک میں طلب سے رسد والی بجلی زیادہ ہے تو پھر اعلانیہ ہو یا غیراعلانیہ’ ایسی لوڈشیڈنگ کا جواز کیا ہے؟ بقول علامہ اقبال
خلق خدا کی گھات میں رند وفقیہ ومیر وپیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح وشام ابھی
دوسرا مسئلہ ایک ڈگری کا ہے جو بادی النظر میں پی آئی اے میں جعلی ڈگریوں سے جڑتا دکھائی دیتا ہے اور جس طرح قومی ایئر لائن کو اپنوں ہی کی غلط حکمت عملی یا بعض تجزیہ کاروں کے بقول متعلقہ وزیر پر استعفیٰ کیلئے دبائو سے بچانے کیلئے توجہ ہٹانے کی غرض سے پوری ایئر لائن کو عالمی سطح پر کھڈے لائن لگا دیاگیا ہے اسی طرح یہ جو ایک اور وزیر کی ڈگری کامعاملہ بالآخر ایک بار پھر اُٹھ کھڑا ہوا ہے اور متعلقہ یونیورسٹی نے اس پر سوال اُٹھا دئیے ہیں تو اس ضمن میں سرکاری سطح پر خاموشی سے تو یوں لگ رہا ہے کہ اس ضمن میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اسلم رئیسانی کے ”مشہور زمانہ” نظرئیے کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے چاہے اصلی ہو کہ نقلی۔ اس خاموشی پر ہم اپنی ہی غزل کے دو اشعار سے رجوع پر مجبور ہوگئے ہیں کہ
اک طویل خاموشی
جیسے جھیل خاموشی
شور کے تقابل میں
ہے فصیل خاموشی
اگرچہ فیس بک پر ایک ہنگامہ اس حوالے سے برپا ہے کہ بعض ٹی وی چینلز نے اس خبر کو چُھپنے نہیں دیا اور سامنے لاکر مبینہ جعلی ڈگری کی حقیقت سے پردہ اُٹھا دیا حالانکہ اخبارات نے اسے چھپنے (شائع کرنے) سے پہلو تہی کی’ لیکن یہ جو کم بخت سوشل میڈیا ہے اس پر موجود ایکٹوسٹس نے قسم کھا رکھی ہے کہ ”پگڑی سنبھال جٹا” کے بیانئے کو روشن رکھنا ہے’ اوپر سے مخالف سیاسی جماعتوں کے ارکان بھی کہاں خاموش رہنے والے ہیں’ سو دیکھنا یہ ہے کہ اس مسئلے کو اسلم رئیسانی کے نظرئیے کا شکار کرنا ہے یا پھر ”رسوائی” صرف اجمل وزیر جیسے ” کمزور” افراد ہی کا مقدر ٹھہرتی ہے اور ڈگری والے معاملے میں کوئی طاقتور ڈٹرجنٹ استعمال کیا جائیگا جس سے ضدی سے ضدی داغ بھی دھل جائے۔
پگڑی اپنی سنبھالئے گا میر
اور بستی نہیں یہ دلّی ہے

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار