4 142

حسن خلوص دیکھ کر میرے بیان میں

ایک قول زریں یقینا بڑی افادیت کا حامل ہے یوں کہئے یہ زندگی بدل دینے والا جملہ ہے یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ آپ اپنی زندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے واقعات کو اپنی مرضی کے تابع کر دیں، یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے زندگی ایک کینوس ہے اور آپ کے پاس یہ اختیار ہے کہ آپ اس پر جو پینٹ کرنا چاہیں کر دیں یعنی زندگی میں اپنی مرضی کے رنگ بھر دیں، پہلے آپ اس قول زریں پر ایک نظر ڈال لیں: ”چیزیں اپنی ذات میں کوئی معنی نہیں رکھتیں سوائے اس کے جو معنی ہم انہیں دیتے ہیں” یعنی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کو معنویت ہم دیتے ہیں۔ اگر آپ اس خوبصورت قول کی معنویت سے آشنا ہوجائیں تو پھر آپ اپنی سوچ اپنے جذبات کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے بلکہ آپ اپنی سوچ اور جذبات کو خود حکم دینے کے قابل ہوجائیں گے، آپ ان پر سوار ہوجائیں گے۔ درحقیقت ہم دو دنیاؤں میں رہتے ہیں ایک ہمارے اندر کی دنیا اور ایک باہر کی دنیا۔ ہمارے جذبات، ہماری سوچ، ہمارے خیالات ہماری اندر کی دنیا میںموجود ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا واقعات کی دنیا ہے، تجربات کی دنیا ہے، آپ کی سوچ آپ کے خیالات باہر کی دنیا کے معنی طے کرتے ہیں۔ ہم اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو کیسے معنی دیتے ہیں اسے ایک سادہ سی مثال سے سمجھ لیتے ہیں۔ فرض کریں آپ کا نوجوان بیٹا آپ کی بات نہیں مانتا، اکثر نافرمانی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے جس ڈگر پر آپ اسے چلانا چاہتے ہیں اس پر نہیں چلتا، اپنی مرضی کی زندگی گزارتا ہے، وقت ضائع کرتا ہے، آپ کی نصیحت پر کان نہیں دھرتا، تو اس قسم کی صورتحال میں آپ غصے سے مغلوب ہوجاتے ہیں، چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں، اسے برا بھلا کہتے ہیں، سخت سست کہتے ہیں، یہ سلسلہ اکثر چلتا رہتا ہے پھر کچھ عرصے کے بعد وہ آپ کی ڈانٹ پھٹکار کا عادی ہوجاتا ہے اور اس طرح اپنی عادات میں مزید پختہ ہوجاتا ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے آپ ذرا غورکیجئے اسے معنی آپ نے دئیے، فرض کریں بیٹے کی نافرمانی کا واقعہ آپ کے کسی دوست کیساتھ پیش آیا لیکن وہ آپ کی طرح غصے سے مغلوب نہیں ہوا، اس نے چیخنے چلانے کی بجائے اپنے بیٹے کے ماحول کا مطالعہ کیا، زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے بہت سی چیزیں تبدیل ہوچکی ہیں، آج کا زمانہ ہمارے زمانے سے مختلف ہے، ہمارے بچے اپنے ماحول کی پیداوار ہیں، یہ ایک عدد سیل فون بھی رکھتا ہے اس نے فیس بک بھی استعمال کرنی ہے، یہ واٹس ایپ پر بھی مختلف قسم کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، آج کا یہی ماحول ہے یہ آج کی زندگی کیساتھ جڑی ہوئی چیزیں ہیں، اب یہ ایک نیا زاویہ ہے دیکھنے کا انداز بدلا تو پھر بیٹے پر غصہ بھی نہیں آیا، اب بیٹا برا نہیں لگ رہا، آپ نے اس صورتحال کو نئے معنی دے دئیے، اب چیخنا چلانا ختم ہوگیا، آپ نے اپنے بیٹے کیساتھ دوستانہ ماحول بنا لیا، اب بات چیت کا سلسلہ شروع ہوگیا، مکالمہ شروع ہوتے ہی چیزیں بدلنے لگیں، وہ آپ کے نکتہ نظر کو سمجھنے لگا، گھر کا ماحول بہتر ہوگیا، اب آپ کا بیٹا آپ کی بات سنتا بھی ہے اور مانتا بھی ہے۔ واقعہ ایک ہی ہے لیکن اسے معنی ہم نے دئیے جو معنی اس واقعے کو دئیے گئے یہ اسی طرح ہوگیا وہ جو کہتے ہیں کہ کوئی چیز بھی اپنی ذات میں اچھی یا بری نہیں ہوتی لیکن ہماری سوچ اسے اچھا یا برا بنا دیتی ہے، اسی طرح کی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ کسی نے بھری محفل میں آپ کی بے عزتی کردی، آپ نے صبر وتحمل سے کام لیتے ہوئے بڑی بردباری کیساتھ اس بے عزتی کو نظرانداز کردیا اور دوسری صورت یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کی بے عزتی کی گئی آپ نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا، کبھی کبھی تو بات بہت دور تک چلی جاتی ہے، انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، بے عزتی والا واقعہ تو ایک ہے لیکن اسے معنی آپ دے رہے ہیں۔ یہ کتنی بڑی تبدیلی ہے، واقعات میں رنگ آپ بھرتے ہیں، اب یہ آپ کی مرضی ہے کہ خوبصورت رنگ بھرتے ہیں یا اپنے جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوکر چیزوں کی شکل وصورت بگاڑ دیتے ہیں جس سے یقینا آپ کی اپنی زندگی بگڑ جاتی ہے، یہ خیال کی طاقت ہے آپ کا تعارف اپنی سوچ اپنے خیال کیساتھ ہوجائے تو پھر آپ اپنی سوچ کے تابع نہیں رہیں گے بلکہ آپ کی سوچ آپ کے تابع ہوجائے گی، جذبات پیچھے رہ جائیں گے اور سوچ آگے بڑھ کر اختیار اپنے ہاتھ میں لے لے گی، یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے زندگی میں خوشگوار تبدیلی آجاتی ہے، آپ کی زندگی میں پیش آنے والے تلخ واقعات پھر تلخ نہیں رہتے کیونکہ انہیں معنی تو آپ نے دئیے ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی