sahar siddique

رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو

تاریخ اور وقت کا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے لوگ آخر کار کامیاب اور سرخرو رہتے ہیں۔ تاریخ کا یہ حوالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ19جولائی1947کو سری نگر میں ہونے والے آل جموں وکشمیرمسلم کانفرنس کے اجلاس میں یہ قرارداد منظور کی تھی کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں ۔اب اس کوتاریخ کا المیہ کہا جائے یا وقت کی بے رحمی سے تعبیر کیا جائے کہ مسلمانوں کی یہ آواز اس وقت کے ڈوگرہ حکمرانوں کی سماعت سے یوں محروم ہوئی کہ امن پسند اور صلح جو کشمیری عوام غلامی کی ان زنجیروں میں جکڑے گئے جس کا وہ ایک طویل عرصے سے عذاب اور اذیت برداشت کررہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی ان کشمیری عوام کو ان کا حق رائے دہی دینے کیلئے سفارتی اور سیاسی سطح پر کوششیں کی گئیں تو ان کوششوں کو نئی دہلی نے ناکام اور غیرمؤثر بنائے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ اس کا اندازہ یوں کیا جاسکتا ہے کہ بھارتی افواج نے جموں اور سری نگر پر زبردستی قبضہ کیا عوام کو اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا اور دوسری طرف عالمی برادری کے سامنے خود مظلوم بن کر امن کی دہائی دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے اجلاس میں ایسی قراردادیں منظور کرائیں جو عملی طور پر توسیع پسند ہندوحکمرانوں کے مکروہ چہرے کا نقاب بن گئیں۔ اب صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ گزشتہ73برسوں سے کشمیری عوام اپنی آزادی اور خودمختاری ہی نہیں بلکہ اپنی سلامتی کے لئے بھی مصروف عمل ہیں۔ یوں تو نئی دہلی میں براجمان ہونے والے ہر بھارتی حکمران نے مقبوضہ کشمیر پر ظلم و ستم کو اپنا وطیرہ اور چلن بنائے رکھا لیکن موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی نے انتہا پسندی اور خاص طور پر مسلمانوں کیخلاف نفرت کے جذبات کو ابھارنے کے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ موصوف نے مقبوضہ کشمیر کی قانونی اور آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے میں بھی کوئی اجتناب اور گریز نہیں کیا۔بھارتی وزیراعظم نے کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو ناکام بنانے کیلئے یہ چال چلی کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل370 اور35-Aکو منسوخ کردیا۔ اس کا بنیادی مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ایسی صورتحال میں کشمیر کو دنیا کے سامنے ناصرف بھارت کا مستقل حصہ بناکر پیش کیا جائے بلکہ غیرکشمیری افراد کو بھارت کے دیگر علاقوں سے لاکر کشمیر میں آباد کردیا جائے۔ بھارتی وزیراعظم نے یہ غیرقانونی اقدام گزشتہ برس پانچ اگست کو نافذکیا تھا چنانچہ اس حوالے سے اب مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ وطن عزیزمیں بھی سیاسی اور سماجی سطح پر اس کی شدید مذمت کی جاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں آباد اور پھیلے ہوئے کشمیری و پاکستانی عوام بھی اس مذمت میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ وہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے اور انسانی حقوق کی دعویدار تنظیموں اور شخصیات کی توجہ ان مظالم کی طرف دلانے کی پرامن کوشش کرتے ہیں جن سے مقبوضہ کشمیر کے عوام نبرآزما ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب بھارتی قابض سکیورٹی فورسز کسی بے گناہ کشمیری کے خون سے اپنے ہاتھ آلودہ نہ کرتے ہوں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ظلم وستم کے اس باب میںخواتین کیساتھ جسمانی اور جنسی زیادتی کی جاتی ہے، نوجوانوں کو ماروائے عدالت کارروائی میں شہید کردیا جاتا ہے حتیٰ کہ نوعمربچوں کو بھی ایسے ہی ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ساری پرامن دنیا اس وقت حیرت و ملال میں ڈوب گئی جب بھارتی فوجیوں نے ایک بزرگ کو پہلے گولی مار کر شہید کردیا اور اس کے بعد اس کی لاش پر اس کے نوعمر نواسے کو بٹھا کر اس کی ویڈیو اور تصویریں بنائیں۔ یہ امر بھی اپنی جگہ قابل افسوس ہے کہ پرامن دنیا یوں تو انسانی حقوق کی بازیابی کے دعوے کرتی ہے اور جمہوریت کے حق میں نعرے بلند کرتی ہے لیکن جب معاملہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کا درپیش ہو تو ان کو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً سانپ سونگھ جاتا ہے۔ کشمیری عوام کو خوب معلوم ہے کہ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں ان کی آواز نہیں سنی جارہی اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب بات کشمیر کی ہو تو مغربی دنیا کے معیارتبدیل ہوجاتے ہیں۔ یہ تاثر اس پس منظر میں نہایت فکر انگیز ہے کہ جب ایسٹ تیمور اور ڈارفن کے عوام کا مسئلہ سامنے آئے تو اقوام متحدہ نے فوری طور پر اپنا سیاسی و سفارتی اثر و رسوخ استعمال کرکے وہاں کے عوام کو ان کی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی اور ان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ کسی سامراج اور ڈکٹیٹر کے اثر رسوخ میں آئے بغیر اپنی مرضی کا فیصلہ کریں۔
یہ درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام اپنی آزادی کی جدوجہد میں بے مثال قربانیاں پیش کررہے ہیں اور انہوں نے اپنی حالیہ جدوجہد کا سرخیل جواں سال شہید برہان وانی کو تسلیم کررکھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے بلند ہیںاور وہ کسی طور بھی بھارتی غلامی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ بہت کم لوگوں کو اس حقیقت کا علم ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں عوام کو باقی دنیا کے احوال کی خبر صرف اور صرف ریڈیو پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ بھارتی غاصب فوج نے رابطے کے دیگر وسائل اور ذرائع ناپید کررکھے ہیں اور وہ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ کشمیری عوام ان کے سامنے سر تسلیم خم کریں گے۔ وہ تاریخ کے اس فیصلے سے سراسر نابلد اور بے خبر ہیں کہ رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔

مزید پڑھیں:  اداروں کومزیدمتحرک کرنے کی ضرورت