3 150

اُلٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا

اُلٹی گنگا بہنے کا نہ صرف مفہوم سمجھ میں آرہا ہے بلکہ اس کے تلخ تجربات سے دوچار ہونے کے مواقع بھی مل رہے ہیں۔ عید کی چھٹیوں کے دو روز گزارنے کے بعد اخبار کا دو روزہ ناغہ بھی ختم ہوا’ یوں منگل کے روز جو اخبار ملا اس میں چینی کی قیمت میں مزید اضافے کی خبریں بہت نمایاں طور پر شائع ہوئی ہیں اور بارہ سو روپے بوری مہنگی ہونے کی وجہ سے پرچون قیمت نے سینچری کو پیچھے چھوڑ کر آگے کا سفر شروع کرنے کی نوید دیتے ہوئے فی کلو ایک سو دو روپے پر پہنچنے کی اخباری سرخی سے آنکھوں کو ”تراوٹ” بخش دی تھی۔ اب اس میں الٹی گنگا بہنے کی بات کا کیا مذکور؟ یقینا آپ ضرور یہ سوال کرسکتے ہیں تو گزارش ہے کہ اس کیلئے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا اور اس حوالے سے مغرب ومشرق کا موازنہ بھی کرنا پڑے گا۔ کہتے ہیں کہ ایک بار کسی مغربی ملک میں (ممکن ہے امریکہ کی بات ہو) ایک شہر میں انڈوں کی قیمت میں اضافہ کر دیا گیا جس سے عام لوگوں کے گھریلو بجٹ پر منفی اثرات پڑنے لگے’ اس صورتحال نے اتوار کے روز چرچ میں جمع ہونے والی خواتین کو چہ میگوئیاں کرنے پر مجبور کیا اور طے پایا کہ کمیونٹی ہال میں اس حوالے سے صلاح مشورہ کیا جائے’ پھر اجلاس میں طے پایا کہ ناشتے وغیرہ میں انڈوں کا استعمال ترک کیا جائے اور گھر والوں یعنی مرد حضرات کو بھی تعاون پر آمادہ کیا جائے’ بس پھر یوں ہوا کہ گروسری سٹورز پر انڈوں کے کریٹوں کے ڈھیر پڑے پڑے سڑنے لگے’ یہ صورتحال دو ڈھائی ہفتے ہی بہ مشکل جاری رہی کہ انڈوں کی قیمتیں خودبخود نیچے آنے لگیں۔ ہمارے ہاں مگر صورتحال یک لخت اس کے برعکس ہے’ مارکیٹ میں جس چیز کی قیمت بڑھتی ہے تو یار لوگ فوراً اس کا ذخیرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں یعنی وہ لوگ جو تھوڑے بہت صاحب استطاعت ہوں وہ ضرورت سے زیادہ خریداری اس لئے کرتے ہیں کہ مزید مہنگی ہونے کی وجہ سے کہیں زیادہ قیمت ادا نہ کرنا پڑ جائے۔ گزشتہ دنوں ٹماٹر’ پیاز اور دیگر سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں’ حالانکہ ٹماٹروں کا متبادل سمجھدار لوگوں کے نزدیک وہی ہے جو ہانڈی میں لذت بھی پیدا کر دیتا ہے اور رونق بھی بڑھا دیتا ہے مگر اس کا کیا کیا جائے کہ جب تک خواتین کی اکثریت ترکاری میں ٹماٹر استعمال نہ کریں انہیں سواد ہی نہیں آتا’ اب جبکہ چینی کی قیمتیں سینچری کراس کر چکی ہیں اور سوشل میڈیا پر کئی طرح کے مشورے سامنے آرہے ہیں یعنی شوگر کا استعمال اگر مکمل ختم نہیں کیا جاسکتا تو کم سے کم کیا جائے’ لیکن یہاں تو صورتحال مرزا غالب سے معذرت کیساتھ یہ بن رہی ہے کہ ” چینی” بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد۔ لوگ چینی چینی پکار کر نوحہ کناں دکھائی دیتے ہیں اس کم بخت چینی سے پہلے بر صغیر میں گڑ کا استعمال عام تھا جس میں مبینہ طور پر چینی کے مقابلے میں صرف 12فیصد کیلریز ہوتی ہیں یعنی سفید شوگر جسے وائٹ پوائزن (سفید زہر) سے تشبیہ دی جاتی ہے اور جس کے استعمال سے مختلف بیماریاں خصوصاً شوگر یا ذیابیطس کے خطرات تقریباً 80فیصد بڑھ جاتے ہیں مگر اس کم بخت کا ذائقہ کچھ یوں ہے کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی’ گڑ کا ذائقہ اب عام لوگوں کا منہ میٹھا کرنے کی بجائے ”کڑوا” کر دیتا ہے’ حالانکہ ہمارے دیہات میں اب بھی گڑ کا استعمال عام ہے اور گڑ کو بھی سفید سے سفید تر بنانے کیلئے گھانیوں پر گنے سے گڑ بنانے کے پراسس کے دوران کیمیکلز استعمال کئے جاتے ہیں جن کی وجہ سے اصلی اور محفوظ گڑ کم کم ہی دستیاب ہوتا ہے’ بس جو لوگ یہ کام کرتے ہیں صرف انہیں ہی پتہ ہوتا ہے کہ کونسا گڑ صحت کیلئے بہتر ہے’ اب اس حوالے سے بھی ممکن ہے آگے چلتے ہوئے ”تمباکو” کی مانند ”صحت کیلئے مضر ہے” والے گڑ کو الگ سے ایک’ دو’ پانچ کلو کے ڈبوں میں پیک کرکے اس پر ”صحت مند گڑ” کے سٹکر لگانے کا کام شروع ہو جائے’ بہرحال یہ تو مستقبل کی بات ہے’ اگرچہ آج کل بھی ڈرائی فروٹ سے سجا خاص گڑ نہ صرف مارکیٹ میں دستیاب ہے جسے سوغات کے طور پر بیچا اور خریدا جاتا ہے۔
بقول سجاد بابر مرحوم
کرن بھی اُترے تو آہٹ سنائی دیتی ہے
میں کیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے
بات اُلٹی گنگا کے محاورے سے چلی تھی اور جو چیز مہنگی ہو جاتی ہے اس سے ہاتھ کھینچنے کی بجائے اُلٹا اس کے استعمال یا کم ازکم خرید وفروخت میں غلط حکمت عملی سے عوام اپنے لئے مسائل میں اضافہ کر دیتے ہیں (معاف کیجئے گا عوام کو آج کل مؤنث باندھا جاتا ہے جو غلط ہے) تاہم کبھی کبھی یہ اُلٹی گنگا خود بھی بہانا ضروری ہوتا ہے جیسے کہ تندوروں پر مہنگی روٹیوں کے بعد یہ مشورے سامنے آرہے ہیں کہ خواتین اگر گھروں میں توؤں’ تندوروں اور اُلٹے توؤں پر چپاتیاں یا روٹیاں (فتیری یا خمیری) خود پکائیں تو نانبائیوں کی ریشہ دوانیوں سے جان چھوٹ سکتی ہے جو آئے روز روٹیوں کی قیمتیں بھی بڑھاتے ہیں اور ساتھ ہی دھمکی آمیز لہجے میں انتظامیہ کو بھی دھمکاتے رہتے ہیں کہ ان کی مرضی کے نرخ مقرر نہ ہوئے تو ہڑتال کردیں گے۔ ایسے میں اگر خواتین دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو کی تصویر بن کر گھروں میں روٹیاں پکائیں تو کیا برا ہے؟ مگر آج کل کی خواتین کہاں یہ مشقت برداشت کرسکتی ہیں۔ اسی لئے تو سرکار بھی خاموش ہے’ بقول حسن نثار
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
اُلٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار