1 203

شاہد خاقان عباسی کی ”زمینی” باتیں

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو مسلم لیگ ن میں عقابی سوچ کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے، ہر جماعت کی طرح مسلم لیگ ن میں بھی عقاب اور فاختائیں موجود ہیں۔ عقاب سخت گیر سوچ کے حامل جبکہ فاختائیں معتدل سوچ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مسلم لیگ ن کا خمیر مجموعی طور فاختائی سوچ کی مٹی سے اُٹھا ہے۔ وقت کیساتھ آگے چل کر اس جماعت میں عقابی سوچ پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس میں مختلف سیاسی حادثات اور واقعات کے ردعمل کا دخل بھی ہے اور کچھ نظریاتی کایا پلٹ ہوجانے کا اثر بھی شامل ہے، پھر یوں لگا کہ اس جماعت میں عقابی سوچ کا غلبہ ہو چکا ہے۔ وقت نے کئی بار اس سوچ کو غلط ثابت کیا، بہت سے واقعات ایسے رونما ہوئے جن میں اس جماعت پر مجموعی طور فاختاؤں کی سوچ غالب رہی اور عقاب دیوار سے لگے رہے۔ پاکستان میں داخلی سٹرکچر ہی کچھ ایسا ہے کہ یہاں سیاست معتدل انداز ہی قبول اور گوارا رہتا ہے۔ مزاحمت اور انقلاب کی لہریں وقتی طور پر اُٹھائی تو جا سکتی ہیں اور رائے عامہ کے ایک مخصوص یا بڑے حصے کو اپنی مٹھی میں بند تو کیا جا سکتا ہے مگر تادیر یہ عمل جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ آخرکار یہ انقلاب یا تو اسقاط کے عمل سے گزرتا ہے یا پھر سمجھوتوں کی نذر ہوتا ہوا کسی بند گلی میں داخل ہو کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کی اس زمینی حقیقت کی دیوار سے سر ٹکرانے والے بہت سے دیوانے اپنا سر ہی گنوا بیٹھے، جن کے سر سلامت بھی رہے مگر دستار سلامت نہ رہ سکی۔ دیواروں، سروں اور دستاروں کی یہ تاریخ ہی ہماری قومی سیاسی تاریخ ہے۔ یہاں انقلاب نعرے کی حد تک عوام کا دل لبھانے کیلئے تو اچھا ہے مگر یہ برپا کرنے کی چیز نہیں نہ یہ نعرہ عملی دنیا کے بازار میں سکہ رائج الوقت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس کا انقلاب کہاں کہاں اور کتنا سمجھوتہ کر بیٹھا۔ سجھوتہ انقلاب کی موت ہوتا ہے، اس سے انقلاب کا ڈنگ اور زہر نکل جاتا ہے پیچھے کینچلی رہ جاتی ہے یا خول۔ مسلم لیگ ن نے پچھلے انتخابات میں ”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ لگایا، مقصد ملک میں ہیئت مقتدرہ کو فیصلہ سازی کے عمل سے نکال باہر کرنا تھا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی پوری فضا بنائی گئی۔ ”امام انقلاب” میاں نوازشریف نے اپنے نظریاتی ہونے کا اعلان کیا گویا کہ وہ بتا رہے تھے کہ وہ پارٹی کی داخلی سیاست اور خارجی امور میں اب طبقہ اشرافیہ کے نمائندہ چوہدری نثار علی خان کی بجائے این ایس ایف کی سیاست کے خوگر پرویز رشید کی سوچ کے قریب ہو چکے ہیں۔ اس سوچ میں وہ تنہا ہی تھے کیونکہ مسلم لیگ ن کا مزاج اور خمیر حقیقت میں چوہدری نثار علی خان کی سوچ سے اُٹھا تھا اور یہی سوچ اس کا مجموعی رنگ وآہنگ رہی۔ ہیئت مقتدرہ نے ”ووٹ کو عزت دو” کے نعرے کو اپنا کمبل چرانے کیلئے سجانے والا میلہ جانا اور اپنا کمبل بچانے کیلئے وہ سب کچھ کیا جو ممکن تھا۔ اس کشمکش میں یہ لگتا تھا کہ ابھی حالات کا منظر بدل جائے گا اور ایک عرب سپرنگ طرز کی لہر طاقت کے ایوانوں اور مراکز میں سیلاب بلا کی طرح داخل ہو کر سارے مناظر کو بدل دے گی۔ یہ مثالیت پسندی پاکستان کے سماج کے مزاج اور سیاسی تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس لئے گزشتہ انتخابات میں کوئی انقلاب برپا ہوا نہ ووٹ کو عزت ملنے کا نعرہ قومی بیانیہ بن سکا۔ پاکستان کی سیاست کا صفحہ اسی طرح اُلٹ گیا جس طرح ماضی کی روایت ہے، نہ کوئی ہوا چلی، نہ کوئی ہاتھ آگے بڑھا اور نہ صفحے کی کھڑکھڑاہٹ اور پھڑپھڑاہٹ محسوس ہوئی اور غیرمحسوس طریقے سے صفحہ اُلٹ گیا۔ مثالیت پسندی پر مبنی نعرے اور دعوے ہواؤں میں تحلیل ہو گئے اور یوں لگا ان نعروں کی ضرورت صرف انتخابات میں عوام کو متوجہ اور متحرک کرنے تک تھی۔ انتخابات کے بعد پھر وہی عملیت پسندی کا دور دورہ تھا۔پس پردہ مذاکرات، بیک چینل رابطے، دور دور سے اشارے، اشاروں کی زبان کا استعمال اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انقلابی نعروں نے تعلقات کی جو ڈور اُلجھا دی تھی اس میں سلجھاؤ کے آثار نمایاں ہوئے۔ حقیقت میں یہی پاکستان کی سیاست ہے اور یہی سیاسی بازار کا سکہ رائج الوقت ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے اپنی روایتی ملائمت کے انداز میں کہا ہے کہ خلائی مخلوق مسلم لیگ ن کے بیانئے میں شامل نہیں۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ کا وجود ہے اور وہ سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ گویا کہ میاںنواز شریف جب یہ کہتے تھے کہ ہمارا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے تو ان کا اشارہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کی بجائے امریکہ، برطانیہ یا بھارت کی مداخلت سے ہوتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بھی ملی معاملات پر ایک مؤقف ہوتا ہے اگر ان کا موقف آپ سے ہم آہنگ نہ ہو تو مسائل پیدا ہو تے ہیں۔ جو اثرات ہم نے گزشتہ الیکشن میں دیکھے اس سے لگتا ہے کہ ہمارے خیالات کو پسند نہیں کیا گیا۔ شاہد خاقان عباسی نے جس سادہ اور سلیس انداز میں گزشتہ برسوں کی لڑائی اور انقلاب آفرین نعروں اور مسحور کن بیانیوں کی تشریح اور توضیح کی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ انقلاب کی لہریں اب بیٹھ رہی ہیں اور یہ بڑی جماعت ضائع ہونے کی بجائے بروئے کار آنے کیلئے سنجیدہ ہو چکی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی میٹھی اور زمینی باتیں ہی حقیقت میں سکہ رائج الوقت ہیں کوئی یہ سبق جلد سیکھتا ہے اور کوئی دوچار حادثات کرانے کے بعد اس حقیقت سے آشنا ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی ا وور بلنگ کے خلاف اقدامات