5 150

کبھی ڈھلتا ہوں کاغذ پہ میں نقش کی صورت

زرے ہوئے کل 5اگست2020 کو ملک بھر میں یوم استحصال کشمیر منایا گیا اور تبدیلی سرکار نے کشمیر کا سیاسی نقشہ پیش کرکے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور اس کے اس سرپرائز پر دنیا بھر میں مختلف مکاتیب فکر کے لوگوں میں مختلف نوعیت کے تبصرے ہونے لگے، کسی نے یہ کہا کہ عمران حکومت نے کشمیریوں کیساتھ یکجہتی منانے کی اس روایت کو خالی خولی نعروں تک محدود نہیں رکھا بلکہ سچ مچ کچھ کر دکھایا جبکہ اس نقشہ کی مخالفت کرنے والوں نے جن میں پاکستان اور کشمیر کی آزادی کے دشمن سرفہرست ہیں، پکار اُٹھے کہ
بہلا رہے ہیں اپنی طبیعت خزاں نصیب
دامن پہ کھینچ کھینچ کے نقشہ بہار کا
ظاہر ہے ملک کے اندر اور ملک کے باہر موجود کشمیریوں کی آزادی نہ چاہنے والوں سے ایسے ہی دل آزار تبصروں کی اُمید رکھی جا سکتی ہے، دوسری طرف سے افواج پاکستان کی ترجمان آئی ایس پی آر کی جانب سے اس موقع پر ایک خوبصورت نغمہ بھی ریلیز ہوکر پاکستان اور کشمیر کے علاوہ دنیا بھر کی ان فضاؤں میں گونجنے لگا جہاں کشمیری یا اہالیان کشمیر سے ہمدردی یا اظہار یکجہتی کرنیوالے موجود ہیں۔
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
وقت گھڑی کی ٹک ٹک کرتی صدا کیساتھ لمحہ بہ لمحہ عہد حاضر کو ماضی قریب اور ماضی قریب کو ماضی بعید میں تبدیل کرتا مستقبل کی جانب رواں دواں رہتا ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ عہد ماضی میں تبدیل ہونے کے بعد قطرہ قطرہ صدیوں سمندر میں گر کر نابود ہوجاتا ہے۔ قدرت کے کارخانے میں ہست وبود کی یہ کہانی صدیوں سے اپنا آپ منوا رہی ہے۔ کتنی ساعتیں گزر گئیں کتنے زمانے بیت گئے کتنی باتیں کتنے واقعات ہم بھول گئے، گزرے وقت کے ان واقعات میں سے کچھ بھولی بسری باتیں ایسی ہیں جو ہمیں بیٹھے بٹھائے یاد آجاتی ہیں اور کچھ حالات وواقعات ایسے ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے۔ بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی بہ یک نقطۂ موذی کی جانب سے کشمیریوں کیخلاف کھیلے جانے والے اس ظلم ناروا کا واقعہ بھی ایسا ہی خوفناک شاطرانہ اور ناقابل فراموش واقعہ ہے جو عالمی انصاف کی تاریخ کے صفحات پر ایک بدنما داغ بن کر اُبھرا ہے
سامنے دیوار پر کچھ داغ تھے
غور سے دیکھا تو چہرے ہوگئے
کشمیریوں کے حقوق صلب کرنے کے داغوں کو لاکھ چھپانے کی کوشش کی جائے مگر ان کا لہو ہر دور میں عالمی انصاف کے علم برداروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتا رہے گا۔ بھارت کے اس اقدام کیخلاف پاکستان نے مظلوم کشمیریوں کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی آواز انصاف کے عالمی اداروں تک پہنچائی، لیکن زمین جنبش نہ جنبش گل محمد کے مصداق انہوں نے ہمارا احتجاج ریکارڈ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا، تقدیر کو بنانا اور بگاڑنا ہر فرد کے اپنے ہاتھوں میں ہوتا ہے، پی ٹی آئی حکومت کے سربراہ یہ بات دہرا دہرا کر کہہ چکے ہیں کہ لڑائی جھگڑا یا جنگ وجدل کسی مسئلہ کا حل نہیں، کشمیر کے مسئلہ کا ہم نے سیاسی حل تلاش کرنا تھا، سو دنیا والوں کے سامنے کشمیر کا سیاسی نقشہ پیش کرکے انہوں نے رہتی دنیا تک یہ بات پتھر پر کھنچی ہوئی لکیر کی طرح رکھ دی کہ مقبوضہ کشمیر پاکستان کا حصہ تھا اور پاکستان کا حصہ ہے جس پر بھارت کا ناجائز قبضہ تھا اور اس قبضہ کو جائز قرار دینے کا مضحکہ خیز اور ظالمانہ اقدام کرتے ہوئے اس نے آج سے ایک سال پہلے اپنے آئین میں ترمیم کرکے اسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا، اسے کہتے ہیں چوری اور سینہ زوری، بھارت کے اس اقدام کیخلاف خالی خولی نعرہ زنی کرنے کی بجائے کچھ کر دکھانے کی ضرورت تھی، سو سیاسی نقشہ تیار کرکے اسے کابینہ کے اجلاس میں منظور کرانا ہی ایسا قدم تھا جس کیخلاف بھارت میں واویلا کی فضاء پیدا ہوگئی ہے، بھارتی میڈیا اس نقشہ کیخلاف جو ہرزہ سرائی کر رہا ہے وہی اس کی اس شکست کی بازگشت ہے۔ لمحہ بہ لمحہ صدیوں سمندر میں ڈوبنے والا وقت اپنے ساتھ لیکر نہ ڈوب سکے گا کہ اس نقشہ کو اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں بھی شامل کردینے کا عندیہ ملا ہے جو آنے والی نسلوں کو ذہنی طور پر حصول کشمیرکو اپنے حب الوطنی کے تقاضوں کا حصہ بنادیں گے، پاکستان کا بچہ بچہ ہر سال اگست کے مہینہ کی 14تاریخ کو جشن آزادی ملکی اور ملی جوش اور جذبہ کیساتھ مناتے ہوئے ثابت کرتا ہے کہ
ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
ہم سب کی ہے پہچان ہم سب کا پاکستان
جشن آزادی پاکستان کی تیاریاں اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی یا اس سے پہلے شروع ہوجاتی ہیں، سائیکلوں، موٹر سائیکلوں، موٹروں، بسوں، لاریوں، گدھا گاڑیوں اور گھروں کی منڈیروں پر چودہ اگست کا استقبال پاکستان کا سبزہلالی پرچم لہرا کر کیا جاتا ہے، اس بار جشن آزادی پاکستان کے اس منظرنامہ میں مقبوضہ کشمیر کا سیاسی نقشہ بھی شامل ہوجائے گا جو پکار پکار کر کہتا نظر آئے گا کہ
کبھی ڈھلتا ہوں کاغذ پہ نقش کی صورت
میں لفظ بن کے کسی کی زباں میں تیرتا ہوں

مزید پڑھیں:  کہ دیکھنا ہی نہیں ہم کو سوچنا بھی ہے