dr. dost muhammad 3

حالات کی تیز ترین تبدیلیاں

ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی حالات ناقابل یقین حد تک عجلت اور سرعت کیساتھ تبدیل ہونے لگے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں تھا، ایک کرونا وباء کے اثرات پر غور کیجئے کہ تین چار مہینے میں دنیا کیا سے کیا ہوگئی۔ دنیا مواصلات کے تمام تر ترقیاتی یافتہ ذرائع کے باوجود جو گلوبل ویلج کے دوران سمٹ کر ایک گاؤں کی صورت اختیار کر گئی تھی دوبارہ سترہویں، اٹھارہویں صدیوں کی دنیا بن گئی۔ ایک ہی ملک کے اندر شہروں اور دیہاتوں کے درمیان فاصلے طویل ہوتے چلے گئے اور یہی حال معاشرتی وسماجی سطح پر رونما ہوا کہ آدمی، آدمی کے سائے سے بدکنے لگا۔ اسی طرح سیاسی سطح پر ملکوں کے درمیان کے تعلقات کی بھی عجیب صورتحال ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان اقتصادی ومعاشی مسابقت اور جنگ نے پوری دنیا کو متاثر کر رکھا ہے اور کبھی کبھی تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ ساٹھ ستر کی دہائیوں کی سردجنگ شروع ہو چکی ہے۔ نئے بلاکس اور اتحاد وجود میں آنے کو ہیں اور ہر انسان، ملک اور بلاک ”مفادات” کے نام پر انسانیت کے سارے تقاضے پس پشت ڈالتے ہوئے ”سب سے پہلے میں اور میرا ملک” کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ پاکستان ان حالات سے بری طرح متاثر ہوا ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کیساتھ پاکستان ستر برسوں تک چاہے نہ چاہے جڑا رہا اور بامرمجبوری یا حالات کی ستم ظریفی اور یا ”ہوئے تم دوست جس کے” کے سبب جب اپنا راستہ بدلنے لگا ہے بلکہ بدل چکا ہے اور ”سی پیک” نے پاکستان اور چین کو لازم وملزوم کر کے رکھ دیا ہے تو سپرپاور اور بھارت کو یہ ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ 5اگست2019ء کو بھارت نے کشمیر کی آئینی وقانونی حیثیت غیرقانونی اور غیرآئینی طور پر تبدیل کی تو اسی لاکھ کشمیریوں کا محاصرہ کر لیا جس کا ایک سال مکمل بھی ہوا، اس نے پاکستان اور جنوبی ایشیاء کو ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش میں مبتلا کر دیا ہے، اس کا شاخسانہ بھارت کو چین کی طرف سے گلوان اور لداخ وغیرہ میں اپنی افواج اُتارنے کی صورت میں مل چکا، لیکن بھارت اب بھی حالات کے تیور سمجھنے کی کوشش قصداً عمللاً نہیں کررہا کیونکہ مودی جیسے انا پرست شخص کے بس کی یہ بات ہے ہی نہیں کہ حالات کے مطابق اقدامات کئے جائیں۔ اب دیکھئے 5اگست2020ء کو ایودھیا کی ساری سڑکیں بند کراکر ایودھیا مندر کا سنگ بنیاد رکھ لیا۔ یہ دراصل اُس کے من کے اندر کی تنگ نظری اور نصب کا اظہار ہے ورنہ پانچ صدیوں تک مسجد (بابری مسجد) رہنے والی جگہ پر مندر کی بنیادیں رکھوانا اپنے کروڑوں مسلمان شہریوں اور دیگر اقلیتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ہے یہاں صرف ہندوتوا ہی چلے گا، جو ہر لحاظ سے اگرچہ غیرفطری، غیرآئینی، غیرقانونی اور غیراخلاقی ہے۔ پاکستان نے بہت بروقت اور برجستہ اس کا جواب نئے سیاسی نقشے کے جاری کرنے کی صورت میں دیا ہے اور ہماری وزارت خارجہ نے اپنی پالیسی کی صراحت کیساتھ وضاحت کی ہے کہ بس کافی ہے، اب او آئی سی کو کشمیر کے حوالے سے بیدار ہونا پڑے گا، ورنہ پھر پاکستان کشمیر پر اپنے ہم خیال مسلمان ملکوں کی اجلاس بُلانے پر مجبور ہوگا۔ سنا ہے یہ بات ہمارے دواسلامی دوستوں (تاریخی دوستوں) کو اچھی نہیں لگی ہے کیونکہ اُن کی بھارت کیساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں لہٰذا وہ بچ بچا کر نہ پاکستان کی کشمیر اور دیگر معاشی معاملات پر بھرپور حمایت کرتے ہیں اور نہ انکار کرتے ہیں لیکن پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی کے بعد اب شنید ہے کہ دونوں عرب دوستوں نے پاکستان کو اپنا قرض واپس کرنے کا کہا ہے جو پاکستان واپس کرنے کے انتظامات چین کی مدد سے کر رہا ہے۔ بیروت پر حملہ یا دھماکہ اور بہت بڑی تباہی (عربوں کیلئے) انتباہ ہے، پاکستان کیلئے سنبھلنے کا اشارہ، پاکستان چین، ترکی، ایران، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ کیساتھ ملکر صحیح راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کو ترکی اور چین کیساتھ اپنی ساری کشتیاں جلا کر ساتھ دینا چاہئے، عالم اسلام میں اس وقت طیب اردگان کو اللہ تعالیٰ نے قیادت کی جو صفات عطا فرمائی ہیں اس سے پاکستان، ایران، ملائیشیا، انڈونشیا، بنگلہ دیش جیسے ملکوں کو بھرپور استفادہ کرنا ہوگا، اسی قیادت کو اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرنے کی قوت دی ہے۔ اس میں دینی حمیت اور خودداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آیا صوفیہ کی مسجد کا افتتاح 2020ء اور اکیسویں صدی کا بہت بڑا تاریخی واقعہ ہے، یہ طیب اردوان کے بغیر ناممکن اور ناقابل تصور تھا۔ نیٹو اور سپرپاور اوراقوام متحدہ کی یونیسکو کی مخالفتوں کے باوجود آیا صوفیہ کی تاریخی حیثیت بحال کرنا بڑا کارنامہ ہے اور یہ بھی حالات کے عجلت کیساتھ کروٹ بدلنے کی غماز ہے۔ لہٰذا وقت کو مٹھی میں کر لینے کیلئے عالم اسلام کو دین، اسلام کے عقائد اور فلسفلہ پر پختہ یقین رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے ورنہ کوئی پتہ نہیں چلتا کہ کل کیا ہوگا؟ کرونا وبا سے دنیا کو سنبھلنے میں ابھی وقگ لگے گا، لہٰذا اس وقت کے دوران ہی ”ہم خیال” مسلمان ممالک کو حالات کی تبدیلی پر گہری نگاہ رکھنا ہوگی اور ان کے مطابق اپنے مہرے شطرنج کی بساط پر آگے بڑھانے ہوں گے ورنہ کچلے جانے کے سنگین خطرات موجود ہیں۔

مزید پڑھیں:  سرکاری عمارات اور سڑکوں کی مرمت کا معاملہ