arif bahar 13

شبِ کورونا کی سحر کے آثار

وفاقی وزیرمنصوبہ بندی اسد عمر کی پریس کانفرنس بتاتی ہے کہ پاکستان میں کورونا کی وباء اب آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور قوم کسی بھی وقت اس عفریت کے خوف اور خطرے سے آزاد جائے گی۔ اسد عمر نے اعلان کیا کہ ملک بھر کے سیاحتی مقامات کو آج سے کھول دیا گیا ہے۔ سیاحتی مقامات پر ہوٹلز کو کھولا جا رہا ہے۔ ایس او پیز کے تحت عوامی مقامات، ریسٹورنٹس، کیفیز، تھیٹر، سینما ہاؤسز، مزارات، بزنس سینٹر، ایکسپو سینٹرز کو کھولا جارہا ہے۔ شادی ہالز، بیوٹی پارلرز اور تعلیمی ادارے بھی پندرہ ستمبر سے کھولے جا رہے ہیں۔ اسی طرح کاروباری مراکز کے کھلنے بند ہونے کے معمولات بھی اپنی پرانی سطح پر بحال ہونے جا رہے ہیں۔ اسد عمر کی یہ پریس کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں کورونا کی شبِ ستم کا اختتام اب سحر کی صورت میں ہونے جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل عوامی جمہوریہ چین نے بھی جنوبی ایشیا کے دو ملکوں کو پاکستان کی تقلید کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان ملکوں کو کورونا پر قابو پانے کی پاکستان کی کامیابیوں سے سیکھنا چاہئے۔ یہ بھی اس بات کا اشارہ تھا کہ پاکستان بطور ریاست اس وبا پر قابو پانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ پاکستان نے چین کے تجربے سے سیکھ کر وباء پر قابو پا لیا اور چین نے کئی دوسرے ملکوں کو پاکستان کی تقلید کرکے اب بلا اور وباء سے خلاصی کا مشورہ دیا۔ ملک بھر سے آنے والی رپورٹس بھی بتا رہی ہیں کہ ملک میں کورونا کا خطرہ بتدریج کم ہو رہا ہے اور اس حوالے سے متوقع نقصان کے اندازے بھی غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ خود وزیراعظم عمران خان نے بہت پہلے ہی اپنے روایتی کھلے ڈلے انداز میں اموات کے حوالے سے اندازے غلط ثابت ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ عیدالفطر کی غلطیوں سے سیکھ کر عیدالاضحی منانا بھی وباء کے خطرے کو کم کرنے کا باعث بنا۔ یوں اب سرنگ کے دوسری طرف روشنی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ لاک ڈاؤن سے آزادیِ خوف وخطرات سے چھٹکارے کی اس منزل تک کا سفر ایک خواب سا لگتا ہے۔ مارچ کے مہینے میں یوں لگا کہ چین سے اُٹھنے والی طوفان کی لہریں پورے یورپ کو روند کرکرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیں گی۔ یہ وہی وقت تھا جب کورونا چینی حدود پھلانگ کر یورپ کی طرف بڑھ رہا تھا اور اٹلی بری طرح اس کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ آثارقدیمہ، بہترین سیاحتی مراکز اور خوبصورت مقامات کا حامل ایک مخصوص وضع قطع ”اٹالین بیوٹی” کیلئے مشہور یہ ملک بھوت نگر بن رہا تھا اور سوشل میڈیا جھوٹی سچی ویڈیو کے ذریعے پبلک مقامات پر بکھری لاشوں اور کھانستے کراہتے ہجوم کوڑے کے ٹرکوں پر لدی لاشوں کے انبار دکھا کر خوف اور دہشت کو ایک نفسیاتی عارضے کی شکل دے رہا تھا۔ یہی وہ مقام اور مرحلہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انسان کو اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ ایک طوفان اُمڈتا چلا آرہا تھا اور دنیا کو طوفانی لہروں کی شدت کا اندازہ ہی نہیں تھا اسی لئے وہ اس سے بچاؤ کی بروقت تدبیر سے بھی قاصر تھے۔ برطانیہ ان ملکوں میں شامل تھا جہاں حکومت خطرے کی شدت اور نوعیت کا اندازہ لگا کر بروقت لاک ڈاؤن کا فیصلہ نہ کرسکی جس پر حکومت کو عوام اور میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بھی برطانیہ کی طرح ان ملکوں میں شامل تھا جہاں حکومت خطرے کی نوعیت کو سمجھنے کے انتظار میں دن گزار رہی تھی۔ مقام شکر ہے کہ وباء کی تباہ کاریوں کا اندازہ غلط ثابت ہونے کے بعد بھوک سے مرجانے کا اندازہ بھی غلط ثابت ہوا۔ اس سے انسانوں کا ایمان پختہ ہوا کہ رزق اور موت وزندگی سمیت سب فیصلے رب کائنات کے ہیں۔ اس کا ایک اور پہلو ہماری سوسائٹی کی اس خوبی کا ایک بار پھر نمایاں ہونا کہ مشکلات، آفات اور حادثات میں سستی، کاہلی کہولت کی شاہکار سوسائٹی عزم وایثار کا قطب مینار بن کر دنیا کیلئے مثال قائم کرتی ہے۔ مخیرحضرات اپنی مٹھی ڈھیلی کرتے ہیں، روپے پیسے کو سینت سینت کر رکھنے والے اپنی تجوریوں کے دہانے کھول دیتے ہیں۔ حالیہ لاک ڈاؤن میں بھی معاشرے نے مجموعی طور پر اپنی اس خوبی اور صفت کا اعادہ کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ موسمی اور وقتی کردار اگر ہر فرد اور معاشرے کی فطرت ثانیہ بن جائے تو اس قوم وملک میں دنیا میں نمایاں اور ممتاز بن کر اُبھرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ جو سحر طلوع ہورہی ہے اس میں ہمارے ستاروں کی انجمن کا لہو بھی شامل ہے۔ خود مذمتی اور خود ملامتی اپنی جگہ مگر جہاںلاک ڈاؤن میں سخاوت ایثار اور قربانی کی مثالیں قائم ہوئیں وہیں بہادری اور جرأت کو بھی ہمارے لوگوں نے نئے مفاہیم عطا کئے۔ بالخصوص شعبہ طب سے وابستہ لوگوں نے جانوں کی پرواہ کئے بغیر مجاہدانہ جوش وجذبے سے اس بلا کا مقابلہ کیا اور بہت سے عالی دماغ اس معرکے میں جانوں سے گزر گئے۔ ان میں انتظامیہ فوجی جوان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ بھی شامل تھے۔ جنہوں نے پلاسٹک نما لباس کو ذرہ وبکتربند بنا کر لڑائی کی اور خاموشی سے زخم کھا کر کسمپرسی کے عالم میں مٹی کی ردا اوڑھ لی۔ جاتے ہوئے ”ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے” کی فرمائش تک نہیں کی۔ اب جبکہ بہار کے آثار نمایاں ہیں تو حکومت کو ان مجاہدوں کو محسنوں کی شان اور وقار کیساتھ یاد کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام