logo 33

مفاہمت وتعاون سے سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں

وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے 2سال بہت مشکل سے گزارے، اب ترقی شروع ہوگی۔ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا، این آر او والے ہر جگہ اکھٹے ہو جاتے ہیں’ قانون سازی پر بلیک میل کرکے این آر او مانگا جاتا ہے، کسی سے رعایت ہوگی نا این آر او ملے گا۔ جمعہ کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اپنے سیاسی حریفوں کو ایک بار پھر آڑے ہاتھوں لیا اور کہا ان کی حکومت ماضی کی طرح لوٹ مار پر نہیں تعمیر وترقی پر یقین رکھتی ہے۔ سیاسی حریفوں پر این آر او مانگنے اور قانون سازی کیلئے بلیک میل کرنے کا الزام وزیراعظم نے پہلی بار نہیں لگایا وہ، ان کے وزراء اور پارٹی رہنما تواتر کیساتھ پچھلے دو سال سے یہی بیانیہ پیش کرتے آرہے ہیں لیکن اس دوران جتنی بھی قانون سازی ہوئی یہ حزب اختلاف کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ اس طور کیا وزیراعظم اور ان کے رفقا پچھلے دنوں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے ہوئی قانون سازی کیلئے حزب اختلاف کو ادا کی گئی قیمت بارے قوم کو بتانا پسند کریں گے؟ کیونکہ اگر بقول ان کے حزب اختلاف رعایات کے بغیر تعاون پر آمادہ نہیں ہوتی تو پھر یہ قانون سازی کیسے ہوگئی۔ پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ہر دور میں حکومت وقت قانون کی علمبردار اور محب وطن ہوتی ہے اور اس کی حزب اختلاف قانون شکن’ حب الوطنی کے جذبوں سے محروم اور موقع پرست قرار پاتی ہے۔ اس فہم وفکر نے سیاسی عمل’ تعمیر وترقی اور دیگر امور کو جو نقصانات پہنچائے ان پر دو آراء نہیں ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال کا اندازہ عالمی بنک کے کنٹری ایگزیکٹو ڈائریکٹر الانگو میتھو کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جس میں دوٹوک انداز میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان معاشی اصلاحات پر سیاسی مفاہمت کے بغیر شرح نمو میں دیرپا اضافہ نہیں کرسکتا”۔ صاف سیدھے انداز میں یہ کہ سیاسی ابتری (باہمی اعتماد میں فقدان) ہی وہ اصل رکاوٹ ہے جو معاشی اہداف کے حصول کیلئے ٹیک آف میں مانع ہے۔ بنیادی طور پر وزیراعظم اور ان کے رفقا کو یہی بات نہ صرف سمجھنا ہوگی بلکہ مکالمے سے مفاہمت کی راہ بھی نکالنا ہوگی تاکہ یکسوئی کیساتھ ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے جو تعمیر وترقی اور دیگر اہداف کے مانع ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ سیاسی عمل اور نظام ہائے حکومت ہر دو کی بنیادی ضرورت مفاہمت کا مکالمہ اور تعاون ہوتے ہیں، بدقسمتی سے وزیراعظم اپنے سیاسی حریفوں سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں، مذاکرات اور مفاہمت بہت دور کی بات ہے۔ کشمیر جیسے سنجیدہ بلکہ سنگین تر ہوتے مسئلہ پر پارلیمان میں جب اپوزیشن قومی یکجہتی کا مظاہرہ کر رہی تھی وزیراعظم خود ایوان میں موجود نہیں تھے۔ انہیں (وزیراعظم کو) بطور خاص یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ اب فقط تحریک انصاف کے سربراہ اور حکومتی اتحاد کے قائد نہیں بلکہ ملک کے وزیر اعظم ہیں، اس حیثیت میں انہیں ملک اور قوم کے مفاد میں سب کو ساتھ لیکر چلنا چاہئے۔ ثانیاً یہ کہ احتساب کے عمل پر ہر کس وناکس ایک ہی بات کہتا ہے کہ یہ عمل شفاف انداز میں آگے بڑھنا چاہئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب احتساب بلاامتیاز ہو۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ احتساب کا عمل بلاامتیاز نہیں، حکومت کے یہ دعوے اپنی جگہ کہ نیب ایک آزاد وخود مختار ادارہ ہے، عملی صورت یکسر مختلف ہے۔ اندریں حالات حکمران قیادت کے دعوئوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلینا بہت مشکل ہے۔موجودہ دور میں صورتحال ماضی کے برعکس ہے، دو سال الزام تراشیوں میں ہی گزر گئے۔ عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں، مہنگائی میں دو سالوں کے دوران ہونے والے اضافے نے عوام الناس کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی میں اپوزیشن مانع ہے؟ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے سکینڈل کی بھی اپوزیشن ذمہ دار ہے؟ روز مرہ کے امور جس توجہ اور حکمت عملی کے متقاضی ہیں حکومت نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ سیاسی عمل آگے بڑھے تو اعتماد سازی کی فضا تعمیر وترقی میں معاون بنتی ہے۔ کیا وزیراعظم اس تلخ حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گزشتہ روز ( جمعہ کو) اسٹاک ایکسچینج میں چھوٹے سرمایہ کاروں کے سوا آٹھ ارب روپے ڈوب گئے؟ پچھلے دو سالوں کے دوران چھوٹے سرمایہ کاروں کے دو سو ارب روپے حصص کے اُتار چڑھائو میں ڈوبے، کیا متعلقہ وزارت نے کبھی نوٹس لینے کی زحمت کی کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک دن کی ریکارڈ بہتری اگلے روز اربوں روپے ڈکار جاتی ہے؟ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب سیاسی مفاہمت کی فضا نہ ہو تو دیہاڑی بازوں کی بن آتی ہے۔ کوئی بھی اس امر کی تائید نہیں کرے گا کہ کرپشن کے مقدمات ختم کردئیے جائیں البتہ یہ بات سب کہیں گے کہ احتساب اور مفاہمت وسیاسی عمل کا ساتھ ساتھ آگے بڑھنا از بس ضروری ہے۔ وزیراعظم کو موجودہ حالات میں قومی قائد کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا، بیروزگاری’ مہنگائی اور غربت کے خاتمے کیلئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی اور اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ احتساب بلاامتیاز ہو تاکہ مستقبل میں ان لوگوںکی حوصلہ شکنی ہوسکے جو سیاسی عمل کو بھی ایک طرح کا کاروبار ہی سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!