5 155

14اگست کے تناظر میں

یہ بات شاید ہر پاکستانی کو معلوم ہے اور ہونی چاہئے کہ قیام پاکستان علامہ اقبال کا خواب اور قائداعظم محمد علی جناح اس خواب کی تعبیر میں پیش پیش رہے ہیں۔ اگرچہ بعض لوگ اتنے برس گزرنے کے باوجود ان باتوں سے اپنی سیاسی رجحانات کے تحت آج بھی اتفاق نہیں کرتے لیکن ہماری نئی پود یعنی نوجوان نسلوں کے سامنے ان باتوں کی وضاحت 23 مارچ، 14اگست اور بعض دیگر قومی ایام کے موقعوں پر ہوتی رہنی چاہئے تاکہ ملک وقوم کی تاریخ کی یہ ضروری باتیں نسل درنسل منتقل ہوتی چلی جائیں یہ قوموں کی بقا اور ترقی ونشوونما کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔
قیام پاکستان کی تاریخ کا اہم موڑ دسمبر 1930ء ہے۔ اس سے پہلے اگرچہ مسلم لیگ کا قیام وجود میں آچکا تھا لیکن اس سیاسی جماعت کے نوابوں، نوابزادوں اور سرآغا خان جیسے امراء وغیرہ نے اس کے مقاصد بیان کرتے ہوئے جو باتیں کہی تھیں اُن میں ہندوستان کے اندر یا باہر ایک الگ مملکت کے قیام کا تصور کہیں بھی نہیں تھا۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ اس کے ذریعے وہ انگریزوں کو اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے مسلمانان ہند کیلئے کچھ حقوق ومراعات کے حصول اورہندوئوں کی شدھی اور سنگٹھن کی تحریکوں کے اثرات اور خوف سے محفوظ رکھنے کی کوشش تھی۔
مسلم لیگ کی اس حالت کے پیش نظر محمد علی جناح نے ہندوستان کی سیاست سے مایوس ہو کر لندن واپس جانے کا یہ کہہ کر پروگرام بنایا کہ یہاں سیاست کرنا کارعبث ہے کیونہ مسلم لیگ کی رات کے اجلاس میں جو بات طے پاتی ہے وہ صبح ہونے سے پہلے انگریز سرکار کے ہاں پہنچ چکی ہوتی ہے، لہٰذا مشرق کا یہ چمکتا سورج دوبارہ مغرب میں جاکر غروب ہوا، لیکن اللہ کی شان دیکھئے کہ مغرب کا تعلیم یافتہ بیرسٹر ایٹ لاء اور پی ایچ ڈی اور مغربی تہذیب وثقافت کے اندر جھانک کر دیکھنے والا سورج مشرق سے یوں طلوع ہوا کہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے ہاں گھپ اندھیروں میں روشنی کی کرنیں اور ہندوؤں کے ہاں اس کی تمازت محسوس ہوئے بغیر نہ رہ سکی اور یہ دسمبر1930ء کے ایام تھے جب علامہ محمد اقبال نے خطبات آلہ آباد پیش کئے۔ علامہ اقبال کے یہ خطبات جہاں مسلمانان ہند کیلئے اُمید اور خوشخبری کی حیثیت رکھتے ہیں وہیں علامہ کی علمیت، انشاء برداری اور انگریزی دانی کا شاہکار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستانی قوم کے اساتذہ، دانشوروں، ادیبوں اور بیوروکریٹس کی اکثریت اس کے مطالعے سے آج تک محروم رہی ہے۔ ان خطبات کا عرق اور نچوڑ قیام پاکستان کیلئے بنیادوں کی مدلل اور برحق فراہمی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی زمانے میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے جو خطبہ پیش کیا اُس کا لب ولباب بھی یہی تھا کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں پنجاب، سندھ، بلوچستان اور شمال مغربی سرحدی صوبہ کی صورت میں مسلمانوں کی ایک الگ ریاست (یونٹ/صوبہ) ہونا چاہئے۔ فرمایا: یہ میری تجویز بھی ہے اور مطالبہ بھی۔ علامہ اقبال کے الفاظ یوں ریکارڈ پر ہیں’ ترجمہ: ”بعض لوگ یہ اعتراض کرتے رہے ہیں کہ اس الگ وطن کا قیام کہاں ہے؟ لیکن کتنے لوگوں کو یہ بات بالخصوص نئی نسلوں کو معلوم ہے کہ 1930ء میں یہ تصور کہاں تھا کہ انگریز یوں پندرہ سترہ برس بعد جنگ عظیم دوم کے سبب بوریا بستر گول کرنے پر مجبور ہوگا۔ علامہ اقبال کا کمال تصور یہ ہے کہ برٹش ایمپائر کے اندر یا باہر مسلمانوں کی یہ ریاست وجود میں آنا انڈیا اور اسلام دونوں کے وسیع تر مفادات میں ہوگا”۔ اس ہدف کے حصول کیلئے علامہ محمد اقبال نے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ محمد علی جناح تھے، لندن کی تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے موقع پر علامہ نے محمد علی جناح سے تفصیلی ملاقات کی اور اس موقع پر جس طرح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے اپنے خطبات اور شمال مغربی ہند میں مسلمانوں کیلئے الگ ریاست کے مطالبہ کے ذریعے ایک نئی روح پھونک دی، محمد علی جناح کو بھی اس بات پر قائل کر لیا کہ مسلمانان ہند کی سیاسی رہنمائی وقیادت اور انگریز وہند کیساتھ بیک وقت قانونی کشمکش اور بڑائی کیلئے آپ کی موجودگی ناگزیر ہے۔ قائداعظم مان گئے اور ہندوستان واپس آکر مسلم لیگ کو اُن ہی خطوط پر آگے بڑھایا جو علامہ محمد اقبال نے کھینچی تھیں۔ محمد علی جناح کو اگرچہ ہندوستان آنے کے بعد علامہ محمد اقبال سے استفادہ کرنے کا زیادہ موقع نہیں ملا لیکن محمد علی جناح کو جس کام پر لگایا اُس کے خدوخال علامہ کی وفات کے دو برس بعد 23مارچ1940ء میں قرارداد لاہور کی صورت میں سامنے آئے۔ علامہ کی وفات پر قائداعظم نے کلکتہ میں فلسطین کے حوالے سے منتعقد ایک جلسہ میں تعزیتی ریفرنس میں اپنے جذبات کا اظہار یوں فرمایا تھا کہ علامہ اقبال میرا ذاتی دوست، فلاسفر اور رہنما تھا، میں نے ہمیشہ اُن کی فکر سے روحانی تقویت حاصل کی۔ ایک اور موقع پر حب قائداعظم سے پوچھا گیا کہ اگر ایک طرف کلام اقبال ہو اور دوسری طرف مسلمان ریاست کی سربراہی تو آپ کیا پسند کریں گے؟ فوراً جواب دیا، میں پہلی چیز (کلام اقبال) کو ترجیح دوں گا۔
خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''