1 211

معیشت کا رپورٹ کارڈ

1999 سے لیکر اب تک برسر اقتدار آنے والی چاروں حکومتوں میں سے سبھی نے اپنے پہلے دوسال اپنے سے پچھلی حکومتوں کی جانب سے ورثے میں ملی دگرگوں معیشت کو مستحکم کرنے میں صرف کئے۔ ہر حکومت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑی تھی اور اس کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ موجود نہ ہوتا تھا۔ سو اب سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے دو سالوں میں اس سب سے کیا مختلف اور بہتر کیا ہے؟ آئیے ہم اس سوال کا جواب پچھلے پانچ ماہ میں ان کی کارکردگی کے تجزئیے سے ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ملک کو مہلک وبا کرونا کا سامنا تھا۔
ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس وبا کا مقابلہ کافی حقیقت پسندانا طریقے سے کیا ہے۔ جہاں مجھ سمیت کئی لوگ یہ سمجھتے تھے ایک طویل مدتی مکمل تالہ بندی کے علاوہ اس سے بچاؤ کا کوئی حل نہیں وہیں یہ حکومت پاکستان کے مزدور اور غریب طبقے کی مجبوریوں کا ادراک رکھتے ہوئے خاصی دانشمندی اور حقیقت پسندی کیساتھ اس سے نمٹی ہے۔ کووڈ19 کیخلاف جنگ ایک مشترکہ کاوش تھی جس کی حکومت نے احسن انداز میں سربراہی کی۔ عملی محاذ پر افواج اور صوبائی حکومتوں کیساتھ ملکر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سنٹر کا قیام عمل میں لانا اس وبا سے نمٹنے کیلئے ایک مربوط لائحہ عمل مرتب کرنے میں کارگر ثابت ہوا۔ دوسری جانب معاشی محاذ پر مرکزی بینک نے شرح سود میں بروقت کٹوتیوں اور کچھ معاملات میں عمل دخل سے کئی کمپنیوں کا کام چلتا رکھا اور یوں بہت سے لوگو ں کا روزگار بچا لیا گیا۔ اس کیساتھ ساتھ کاروباری افراد اور ان کے ملازمین کو بھی خوب شاباش کہ انہوں نے اس سخت وقت کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے معیشت کا پہیہ جام نہ ہونے دیا۔
حکومت کے اس بحران سے براہ راست شدید ترین متاثرہ طبقے کی بروقت امداد کرنے کے سبب غربت اور بیروزگاری میں اضافہ ہونے سے بچ گیا۔ اس نے یہ ریلیف اس شہری غریب طبقہ تک بھی پہنچایا جو ہماری غیررسمی معیشت کا بڑا حصہ ہیں اور جن پر اس سے پہلے کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت نے معیشت کو دھکا لگانے اور روزگار کے مزید مواقع فراہم کرنے کیلئے ایک بڑے تعمیراتی منصوبے کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ ان تمام بحالی کے اقدامات کے باعث معیشت یکدم گرنے سے محفوظ رہی۔ مالی سال2019-20 میں ہماری درآمدات میں بھی زیادہ کمی نہیں آئی، سو معیشت صرف دو تا تین فیصد ہی گرنے کی توقع ہے۔ اُمید افزاء بات یہ ہے کہ جولائی2020 سے درآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اور تعمیراتی شعبہ بھی اپنے عروج کی طرف گامزن ہے۔ یہ وہ تمام اقدامات ہیں جن کا سہرا حکومت کے سر جاتا ہے البتہ حکومتی خامیوں پر تنقید بھی ناگزیر ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام نے ہماری معیشت کو مجموعی طور پر تو اپنے پاؤں پر کھڑے رکھنے میں مدد دی ہے البتہ اس میں کچھ بڑی خامیاں نظرانداز نہیں کی جا سکتیں۔
اس پروگرام میں سب سے بڑی خامی شرح مبادلہ کا اوپن مارکیٹ سے مشروط ہونے کی شرط پر متفق ہونا تھا۔ اس کا نتیجہ روپے کی قدر میں کمی کی صورت نکلا جس سے مہنگائی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل تغیر غیریقینی صورتحال کو جنم دے رہا ہے۔ فکر مندی کی بات یہ ہے آئی ایم ایف کی جانب سے پیسوں کی دوسری قسط جاری کرنے میں خاصی تاخیر کی جارہی ہے اور حکومت حال ہی میں عالمی بینک کے ایک پانچ سو ملین ڈالر کے اصلاحی پروگرام کا حصہ بنی ہے۔ اس پروگرام کا حصہ بننے کا مقصد اپنی معاشی سکت میں اضافہ تھا تاکہ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کی گئیں شرائط پر پورا اُترا جا سکے۔ یوں ایک جگہ پر پیسے واپس کرنے کیلئے دوسری جگہ سے مدد لیتے رہنا کہاں کا حل ہے؟
تحریک انصاف کی اعلیٰ سطحی قیادت کا چینی پر سبسڈی دینے سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہو کے اپنے ذاتی فائدے حاصل کرنے کی الزامات خاصی تشویش کا باعث ہیں۔ البتہ یہ بات تو واضح ہے کہ ان الزامات پر حکومت نے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اس کی رپورٹ کے مطابق قصورواروں کیخلاف گھیرا تنگ کرنا بھی شروع کر دیا گیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات اس طاقتور طبقے کی بنیادی اشیاء ضروریہ پر قائم اثر ورسوخ ختم کرنے میں کارگر ثابت ہوسکیں گے یا نہیں۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب قصورواروں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور عوام کو منڈی میں مقابلے کے باعث کم قیمتوں سے فائدہ پہنچنا شروع ہوگا۔ فی الوقت حکومت کے سامنے ایک بڑا واضح چیلنج موجود ہے۔ اسے روزمرہ کے مالی معاملات کو چلانے کے انداز میں بہتری لانے کیساتھ ساتھ تین سالہ جامع معاشی وقانونی اصلاحات کا پروگرام مرتب کرنا ہوگا اور ان تمام اصلاحات کا اصل مقصد گردشی قرضوں کا خاتمہ اور آمدن میں اضافہ ہونا چاہئے۔ اگر تحریک انصاف آئندہ تین سالوں میں معیشت کو مجموعی طور پر مستحکم رکھنے اور معاشی نمو میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو یقینا وہ گزشتہ حکومتوں کو اپنی کئی گنا بہتر کارکردگی کے سبب کوسوں پیچھے چھوڑنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ