p613 92

بی آرٹی، ادھوری سروس کیوں؟

ناقدین بی آرٹی کے ادھورے منصوبے کے افتتاح کی پھبتی کستے ہیں تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن اگر بس چلانے والی کمپنی کے عہدیدار ہی اس کے ادھورے پن کی گواہی دیں تو اسے نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی توجیہہ ممکن ہے۔تاخیر درتاخیر کے بعد بالآخر وزیراعظم کے ہاتھوں افتتاح ہونے والی پر سہولت بس سروس کو کمپنی عہدیداران ہی ادھورے کیوں رکھنا چاہتے ہیں اور اس کی دستیاب استعداد کو بروے کار کیوں نہیں لیا جاتا اس کی وجہ کم از کم ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔بی آرٹی چل پڑی لیکن فیڈر روٹ پر بسیں کب چلیں گی اور فیڈر روٹ پر بسیں کیوں نہیں چلائی جارہی ہیں ۔ اس کا عوام کو علم ہونا چاہیئے اور یہ جاننا عوام کا حق اور کمپنی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو آگاہ کرے۔ناقدین کی تنقید سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت بی آرٹی کی نصف استعداد سے بھی کم بروئے کار لائی گئی ہے بسیں موجود ہیں لیکن روٹ پر صرف ستر بسیں چل رہی ہیں خود کمپنی حکام کے مطابق رش دیکھ کر دس منٹ میں بیسں مزید بسوں کا انتظام مشکل نہیں لیکن کل ملک سعد شہید سٹیشن پر سیکورٹی اہلکاروں نے بسیں دستیاب نہ ہونے کی نوید سنا کر اور سٹیشن بند ہونے کی اطلاع دے کر مسافروں کو واپس بھجوادیا سوال یہ ہے کہ بسوں کے بڑے بیڑے کی موجودگی میں روٹ پر صرف ستر بسیں کیوں چلائی جارہی ہیںممکن ہونے کے باوجودرش میں کمی کیلئے مزید بسیں روانہ کرنے میں کیا امر مانع ہے۔فیڈر روٹ فعال کیوں نہیں کی جارہی ہیں ۔سوال یہ بھی ہے کہ زو ایکسپریس کیوں نہیں چل رہی ہے ہر سٹاپ پر ہر بس کے کھڑے ہونے سے وقت کا ضیاع کیوں کیا جار ہا ہے؟۔یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب اور جن کا حل مشکل نہیں لیکن مشکل سے مشکل تر بنانے کی عادت شاید بی آرٹی کے نظام میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ان سوالات اورکوتاہیوں سے قطع نظر عوامی سطح پر بلا امتیاز بی آرٹی کی تحسین کی جارہی ہے صوبے کے عوام کو پہلی بار ایک معیاری پر آسائش اور تیز رفتار سفر کی سہولت میسر آگئی ہے جس کا تقاضا ہے کہ کمپنی کم از کم دستیاب اور موجود استعداد کو بروئے کار لا کر عوام کو اس امر کا احساس دلائے کہ حکومتی منصوبہ بندی اور اقدامات کے باعث ان کو اب مزید سفری مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔چند دن نوجوانوں کی ٹولیوں کا سیٹوں پر قبضہ جمانا اور سٹیشنز پر اترنے سے انکار توڑ پھوڑ کا ایک آدھ واقعہ یہ کوئی سازش نہیں اور نہ ہی اس کا اعادہ ہونے کا خدشہ ہے بی آرٹی کی مختصر مدت میں عوام کی جانب سے پذیرائی کوئی پوشیدہ امر نہیں جس کا تقاضا ہے کہ کمپنی حکام اب خدشات کی بجائے حوصلے سے کام لیں اور ایسے اقدامات اور فیصلوں سے گریز کریں جو عوام کیلئے مشکلات اور خواہ مخواہ کی ناپسندیدگی کا باعث ہوں۔ بسوں میں سگریٹ اور نسوار کے استعمال پر پابندی یقینی بنانے کا تقاضا اپنی جگہ لیکن لوگوں کی تلاشی لینے کا طرز عمل درست نہیں اور نہ ہی اس پر مداومت سے عمل ممکن ہے سگریٹ نسوار رکھنے پر نہیں اس کے استعمال کی ممانعت پر عملدرآمد کرایا جائے۔بی آرٹی سیٹیشنز پر سیکورٹی کا بھرتی شدہ عملہ تربیت یافتہ سیکورٹی کے تقاضوں کو سمجھنے والا نظر نہیں آتا بلکہ ایسا لگتا ہے کہ راہ چلتے نوجوان کو وردی پہنادی گئی ہے اور وہ ڈھنگ سے وردی بھی پہنے دکھائی نہیں دیتے ان کی تربیت اور ان کو ضابطہ اخلاق سکھانے کی اشد ضرورت ہے۔بسوں میں انگریزی میں ہونے والے اعلانات مضحکہ خیز ہیں قومی،صوبائی اور علاقائی زبانوں میں اگر ممکن نہیں تو کم از کم قومی اور صوبائی زبان میں اعلانات کئے جائیں ساتھ ہی ساتھ مسافروں کیلئے ضابطہ اخلاق اور سفر کے دوران احتیاطی تدابیر سمیت دیگر ضروری معلومات آسان اور سہل انداز میں قومی وصوبائی زبانوں میں دی جائیں تاکہ عوام کی اکثریت اسے سمجھ سکے اور عمل کرسکے۔بسوں کے اندر سکرینوں پر اشہتارات چلانے سے کمپنی کو آمدنی ہوسکتی ہے اور جو مواد چینی زبان میں لکھا گیا ہے اس زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم کا یا تو ترجمہ کیا جائے یا پھر ان بورڈوں پر مسافروں کیلئے ہدایات اور طریقہ سفر بارے کارآمد معلومات دی جائیں تاکہ کمپنی اور مسافروں کے درمیان ابلاغ ورہنمائی کی ضرورت پوری ہوسکے اور کوئی خلا پیدا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی