تعلیمی اداروں کی کمی اور طلبہ کی تعداد داخلوں کی استعداد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہونے کے باعث ہر سال صوبے کے ہزاروں طلبہ داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں ایف ایس سی کے بعد میڈیکل اور انجینئرنگ میں داخلہ جتنا مشکل اور میرٹ کا متقاضی ہے کم وبیش دیگر مضامین میں بھی سرکاری جامعات اور کالجوں میں بی ایس میں داخلہ لگ بھگ اتنا ہی مشکل اور میرٹ بہت زیادہ ہوتا ہے نجی کالجوں اور جامعات میں بھی اب میرٹ میں آنا مشکل ہوگیا ہے اور نجی طور پر تعلیم ہر طالب علم کیلئے قابل برداشت بھی نہیں ایسے میں صوبے کے ہزاروں طالب علموں کا مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جانا فطری امرہے جو افسوسناک اور حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔صوبائی دارالحکومت ہو یا اضلاع یہ مسئلہ یکساں طور پر سنگین ہوتا جارہا ہے صوبائی دارالحکومت میں داخلہ پالیسی مقامی طور پر تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کے حق میں موافق نہ ہونے سے یہاں کے طالب علم بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں اس مسئلے کے حوالے سے بار بار نشاندہی کی گئی لیکن صوبائی دارالحکومت میں تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں ہر حکومت ناکام رہی ہے اضلاع میں بھی ضرورت کے مطابق تعلیمی اداروں کا قیام نہیں ہو پایا ہے مشت نمونہ از خروارے کے مصداق ضلع باجوڑ اور سوات میں داخلوں کے حوالے سے ہمارے نمائندوں کی رپورٹ کے مطابق تعلیمی اداروں کے کمی کی وجہ سے باجوڑ کے سات ہزار طلبا انٹر میڈیٹ میںداخلوں سے محروم رہ گئے۔ رپورٹ کے مطابق چوبیس ہزار تک میٹرک پاس طلباء تعلیم سے کنارہ کش ہوگئے ہیں ۔یہاں تیرہ لاکھ آبادی کیلئے صرف تین ڈگری کالجز اور صرف ایک سیکنڈری سکول ہے۔ جو ہزاروں میٹرک پاس طلبا کیلئے ناکافی ہے،علاوہ ازیں باجوڑ میں لڑکیوں کا واحد ڈگری کالج میں سینکڑوں طالبات کو داخلہ نہیں ملا، غریب والدین اپنے بچوں کو ضلع سے باہر نہیں بھیج سکتے یہاں شرح خواندگی بدستور 24 فیصد ہے۔اسی طرح سوات میں گورنمنٹ جہانزیب کالج میں 11 ہزار طلبہ نے داخلے کے لیے فارم جمع کرائے ہیں جن میں 12 سو طلبہ کو داخلہ ملے گا۔قبائلی اضلاع میں مجموعی طور پر قائم تمام تعلیمی ادارے کسی ایک بندوبستی ضلع میں قائم تعلیمی اداروں کے مقابلے میں کم بتائے جاتے ہیں یہ ایک سنگین صورتحال ہے خاص طور پر ضم قبائلی اضلاع میں ہنگامی طور پر تعلیمی اداروں کا قیام ناگزیر ہے۔
ڈینگی ٹیسٹ کے ریٹ مقرر کرنے میں ناکامی
پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے ڈینگی ٹیسٹ کیلئے سرکاری نرخ مقررکرنے کے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث عوام سے من مانے ریٹ کی وصولی کا اگر عدالت عالیہ نوٹس لے تو ہی یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ساتھ ہی صوبے کے ہسپتالوں میں پیچیدہ امراض کے سرکاری طور پر مفت علاج کے منصوبے پر بھی عملدرآمد نہ ہونے سے تقریباً بیس لاکھ مریض مشکلات کا شکار ہیں۔صوبے کے بعض اضلاع میں صحت کارڈ کے ذریعے مفت علاج کی سہولت بھی کہیں پرعدم ادائیگی اور کہیں پر سالوں بعد علاج کیلئے کسی مریض کو نمبر دیئے جانے کے باعث عوام کیلئے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔صوبے میں علاج معالجے کے حوالے سے سامنے آنے والے اس طرح کے مسائل اور محکمہ صحت کے حکام کی سرد مہری ولاپرواہی اور غیر ذمہ داری کے ساتھ ساتھ حکومت کے دعوے کے باوجود ادھورے اور غیر مئوثر اقدامات لمحہ فکریہ ہے جس کا جائزہ لیکر اصلاح احوال کی سعی کی ضرورت ہے۔
کارلفٹرپولیس اہلکار
نوشہرہ پولیس کے اہلکار کا کارلفٹر گروہ کا سرغنہ نکلنا پولیس میں کالی بھیڑوں کی موجودگی کا ثبوت ہے جن سے محکمے کوپاک کئے بغیر چوری ڈکیتی اور کار چوری کے وارداتوں کی روک تھام ممکن نہ ہوگی پولیس کے وسائل اور مشینری کو اپنے مذموم مقصد کیلئے استعمال کرنا ملزم کی دیدہ دلیری کی انتہاتھی ملزم کی گرفتاری آسان نہ تھی لیکن بہرحال اسے یقینی بنانا یقیناً تفتیشی ٹیم کی جانفشانی اور محنت کا ثمر ہے۔ملزم کی گرفتاری کے بعد پولیس میں اس طرح کے مزید کرداروں پر نظر رکھنے اور فورس کی تطہیر کے اقدامات ضروری ہوگئے ہیں۔
Load/Hide Comments