babar satar

صرف غصہ کرنا حل نہیں

ایک مرد ہونے کے ناطے ہم اس عورت پر گزری قیامت کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے جسے اس کے بچوں کے سامنے ریپ کا نشانہ بنادیا گیا۔ جس شے کو ہم ٹھیک طرح محسوس نہ کر سکیں، سمجھ نہ سکیں اس سے مکمل ہمدردی بھی ممکن نہیں رہتی۔ ایسا نہیں ہے کہ مرد حضرات اس واقعے پر غضب ناک نہیں۔ ہم باپ، بھائی اور خاوند ہونے کے ناطے غم و غصے کا شکار ہیںمگر ہم اس کرب کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے جس سے متاثرہ خاتون کو گزرنا پڑا۔ ہم تو اس خوف میں مبتلا ہیں کہ اگر خدا نخواستہ ہمارے اپنے بچوں یا گھر والوں کے ساتھ ایسا کوئی حادثہ پیش آیا ہوتا تو ہم پر کیا گزرتی۔ اگر ایک مرد ہونے کے ناطے آپ دوسرے مردوں کے مظالم اور ان جرائم کا جواز گڑھ کر مظلوم کو ہی مورد الزام ٹھہرانے والوں کی مذمت و مخالفت نہیں کر سکتے تو آپ بھی اس برائی میں برابر کے حصہ دار ہیں۔ اردو خبری چینلوں پر ریپ کا ترجمہ ”عزت لوٹنا” جیسے الفاظ میں کرنا ایک صنف پرست پدر شاہی معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس ترجمہ سے متاثرہ خاتون ہی کی بدنام ہوتی ہے، ریپ کرنے والے کی نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق، ہر فرد کے جان و مال ،عزت آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ البتہ ہم اس آئینی حق اور اجتماعی عزت کے قبائلی نظریے میں فرق کواب تک نہ سمجھ سکے۔ عزت و آبرو کا تحفظ ہر فرد کا بنیادی حق ہے جبکہ خاندان کی عزت کو ہمارے معاشرے میں عورت سے یوں نتھی کیا جاتا ہے جیسے یہ کوئی ذاتی ملکیت ہے۔ جب ہم ”عزت لوٹنے” کی اصطلاح کو ریپ کے بدل کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ متاثرہ عورت ہے جو اب اپنی آبرو سے محروم ہو گئی۔یوں جیسے اس کی حیثیت کسی غیر جاندار چیز کی ہے جس سے اس کے خاندان کی عزت وابستہ تھی۔ اس نقطہ نظر کے مطابق خاندان کی ساری عزت عورت کی ذات میں جمع ہوتی ہے اور اس عزت کے رکھوالے کے طور پر وہ اس بات کی پابند ہے کہ وہ اپنے رویے اور برتاو سے کچھ ایسا ظاہر نہ ہونے دے جس سے اس کے خاندان کی عزت پر کوئی حملہ کر سکے۔ جب تک کہ ہمارے ہاں عورت کو خاندان کی عزت کا رکھوالا یا کسی غیر جاندار چیز کی طرح سمجھا جاتا رہے گا تب تک ہمارے معاشرے میں سی سی پی او جیسے لوگ سامنے آتے رہیں گے جو متاثرہ عورت کے برتاو کو ہی اس کے ساتھ ریپ کی وجہ قرار دیں گے۔ موٹر وے حادثہ اور ہر روز ہوتے اس جیسے ہزاروں واقعات پر خاموشی اور رد عمل کا نہ ہونا ہماری ریاست کے مسخ شدہ چہرے کا غماز ہے۔ سی سی پی اولاہور کے بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک پدر شاہی معاشرہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس بنیادی معاہدہ عمرانی کو بھی فراموش کر چکے ہیں جو آئین کے تحت شہریوں اور ریاست کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے۔ جہاں ایک شہری انفرادی طور پر اپنی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا مجاز ہے وہیں ریاستی حکام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی توجہ صرف اور صرف ریاست کی طرف سے شہریوں کوحاصل آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے پر مرکوز کریں۔ موٹر وے واقعے کے بعد پولیس حکام اور وزراء کے بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ وہ انفرادی عمل میں آزاد ہونے اور ریاست کی تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری میں فرق کو بالکل فراموش کر بیٹھے ہیں۔ ایک پولیس افسر جو اپنے علاقے میں سکیورٹی، جرائم کی تفتیش، ان کی بیخ کنی اور وہاں کے باسیوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہو، وہ کسی صورت بھی اس بات کا مجاز نہیں کہ جرم ہونے کے بعدوہ اس بات پر رائے زنی یا تجزیہ پیش کرے کہ کس طرح متاثرہ فرد کا ذاتی عمل اس جرم کو ہونے سے روک سکتا تھا۔ وہ ریاست کی اس ناکامی پر قابل مواخذہ ہے جس کے تحت ایک شہری کے حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ ایک ایسا پولیس افسرجو ریاست کی بجائے متاثرہ فرد کو ہی قصور وار گردانے، قابل مواخذہ ہے۔ اگر عوام خود ہی اپنے تحفظ کے ذمہ دار ہیں تو بھلا پولیس سمیت ان تمام فورسز کی کیا ضرورت باقی رہ گئی جو سرکاری دفاتر میں بیٹھے ہم پر دھونس جماتے رہتے ہیں؟ اگر سی سی پی او کی جگہ بھی کوئی خاتون ہوتیںتو کیا وہ ایسے بے حسی پر مبنی بیان دیتیں؟ یہی وجہ ہے کہ خواتین افسران کی کلیدی عہدوں پر تعیناتی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ اتنے صاحب بصیرت نہیں کہ ان معاملات کو مکمل پیچیدگیوں کے ساتھ سمجھنے کے قابل ہوں جو ہم خود محسوس ہی نہ کر سکتے ہوں۔ مزید برآں وہ لوگ جو ان واقعات کے تدارک کے لیے سر عام پھانسی وغیرہ جیسی سزائیں تجویز کر رہے ہیں،نہیں جانتے کہ ایسے فوری یا عارضی حل سٹیٹس کو کو توڑنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ہمارے نظام کو دیمک چاٹ کر کھوکھلا کر چکی ہے، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ کوئٹہ میں قتل ہونے والے پولیس اہلکار کو انصاف ملے،ساہیوال میں مجرموں کو سزا ہویا پھر موٹرے واقعے کے مجرم قانون کی گرفت میں آئیں تو اس سب کے لیے ہمارے پاس واحد حل کرمنل جسٹس سسٹم میں ہمہ جہت اصلاحات ہیں۔ ان جہتو ںمیں پولیس، استغاثہ، تفتیش، عدالت اور جیل ، سبھی میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔ سرکاری حکام کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نظام کی خامیوں کے سبب اپنی ذمہ داریوں سے روگردانی کریں اور اسے ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات لینے سے کتراتے رہیں۔
(بشکریہ دی نیوز،ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''