4 180

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

کبھی آپ نے یہ سوچنے کی زحمت گوارا کی ہے کہ سیاستدان بیچارے ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ووٹ اورصرف ووٹ! سب کا یہی خیال ہے کہ اپنے آپ کو اجلا ثابت کرنے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ دوسرے کو میلا ثابت کیا جائے اپنے مخالفین کی خرابیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالی جائیں اور پھر انہیں عوام کے سامنے طشت ازبام کیا جائے۔ یہاں روزاول سے یہی کچھ ہوتا رہا ہے اس کیساتھ ساتھ عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم ہی وہ مسیحا ہیں جن کے پاس آپ کے ہر دکھ کا علاج ہے، ہم نے ہی یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہانی ہیں، کہتے ہیں جو ماضی کا مطالعہ دل کی آنکھ سے کرتے رہتے ہیں وہ آنے والے وقت کے حوالے سے پیشن گوئی کرسکتے ہیں، 14اگست1947 سے شروع ہونے والی کہانی ہم سب کے سامنے ہے، یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کہ جس کا سمجھنا مشکل ہو سیدھے اور صاف واقعات ہیں جن میں ایک بات بالکل واضح ہے آپ اسے ہماری بدقستی کہئے کہ قوم کو قائداعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی رہنما نہیں ملا، ایسا رہنما جس کا مرنا اور جینا اپنے وطن اپنے عوام کیلئے ہوتا جو ہمارے لئے مہاتیر محمد ثابت ہوتا جو نیلسن منڈیلا کی طرح اپنی قوم کی حالت زار بدل دیتا۔ آج ہر شعبے میں خودغرضی بددیانتی اور حرص وہوس کا دور دورہ ہے سب کا یہی خیال ہے کہ راہ نجات پیسہ بنانے میں ہے، دوسروں کو لوٹنے میں ہے تربوز کو انجکشن لگا کر میٹھا کیا جارہا ہے، آم کو کاربیٹ کی مدد سے پکایا جارہا ہے، جعلی پیپسی کولا اور دوسرے جعلی مشروبات کی بھرمار ہے، تعلیمی ادارے کھلتے ہی ماسک پھر سے مہنگے ہوگئے ہیں، نجی تعلیمی ادارے دھڑلے سے پچھلے چھ مہینوں کی فیسیں وصول کر رہے ہیں، روٹی کہیں پندرہ اور کہیں دس روپے میں بک رہی ہے، دس روپے والی روٹی دیکھ کر اس نحیف ونزار روٹی پر ترس آتا ہے، اشیائے خوردنی کی قیمتیں روزبروز بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں، اسی طرح سبزیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، فی الحال تو یہ حال ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا، یہ سب کچھ ہماری خواہشات نفسانی کا کیا دھرا ہے، ہماری پریشانیوں تکالیف اور مصیبتوں کا سبب ہماری خواہشات نفسانی ہی ہیں۔ ہم چند روزہ فانی زندگی میں سکون ڈھونڈتے ہیں۔ آسانیاں تلاش کرتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں زندگی نام ہی خوشی وغم کی کہکشاں کا ہے۔ یہاں دائمی خوشیاں کسی کو بھی نہیں ملتیں۔ حالات کے اتار چڑھاؤ حضرت انسان کیساتھ چلتے رہتے ہیں۔ ہم دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، مختلف حیلے بہانوں سے دوسروں کی جائیداد ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں، ناجائز ذرائع سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں، حکومت سے پلاٹ حاصل کرتے ہیں، دولت رکھنے کیلئے جب اپنے ملک کے بینک غیرمحفوظ لگتے ہیں تو اپنی دولت کے ڈھیر غیرملکی بینکوں میں رکھ کر اس خیال غلط میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہماری دولت ہمارے اثاثے محفوظ ہوگئے۔ یہی ہماری بھول ہوتی ہے، ہمیں سب کچھ یہیں چھوڑ کر جانا ہوتا ہے۔ آج ہم مال کے فتنے میں بری طرح سے مبتلا ہو چکے ہیں۔ ہمارے قول وفعل میں تضاد ہے، ہم کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ پاکستان کے قرضوں کا رونا رویا جاتا ہے، یقین کیجئے ہمارے وہ مہربان جن کے اثاثے غیرملکی بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں بڑی آسانی سے وطن عزیز کے قرضوں کی ادائیگی کر سکتے ہیں لیکن ہماری آنکھوں پر چڑھی ہوئی لالچ خودغرضی اور ذاتی مفادات کی چربی ہمیں کچھ بھی تو دیکھنے نہیں دیتی۔ آپ ذرا سوچئے! جس شخص کا اس بات پر پختہ ایمان ہو کہ اس نے ایک دن اللہ کریم کے سامنے کھڑا ہونا ہے اور جہاں اس سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا تو وہ کیسے رشوت لے سکتا ہے؟ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آپ مرنے سے پہلے مرنے کی جو بات کرتے ہیں اس میں کیا راز ہے؟ کیا حکمت ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ جو مرنے سے پہلے مر جاتا ہے وہ پھر مرتے وقت نہیں مرتا۔ اسے پھر موت نہیں آتی وہ پھر امر ہو جاتا ہے! بات ہو رہی تھی اثاثوں کے ڈھیر لگانے کی۔ آئیے ایک نظر اس ملک کے لوگوں پر بھی ڈال لیتے ہیں جو بے تحاشہ پیسہ کماتے ہیں۔ مشہور ادیب ممتاز مفتی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر شمشاد ہارون جب امریکہ سے پیرا سائیکالوجی کی تعلیم مکمل کر کے پاکستان آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ ڈاکٹر یہ بتاؤ کہ امریکہ میں تو تم نے بھرپور زندگی گزاری ہوگی، وہ کہنے لگی کہ امریکہ میں سب کچھ میسر ہے لیکن بھرپور زندگی نہیں ہے، وہ لوگ بھرپور زندگی سے محروم ہیں۔ ارے! یہ کیسے ممکن ہے کہ انہیں سب کچھ حاصل ہو لیکن بھرپور زندگی سے محروم ہوں، پتہ نہیں ایسا کیوں ہے لیکن ایسا ہے ان کی زندگی میں صرف دو چیزیں ہیں، کام کام کام اور تفریح! پھر وہ کام اور تفریح کے چکر میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ انہیں کبھی فرصت نہیں ملتی انہیں مادیت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اتنی فراغت نہیں ملتی کہ وہ سوچیں کہ یہ کام اور تفریح کا چکر کیا ہے؟ کیوں ہے؟ اس کا انجام کیا ہے۔ مقصد کیا ہے؟ اہل مغرب کے نزدیک زندگی کا مقصد اقتصادی ترقی ہے۔ ہمدردی قربانی یاخدمت اور محبت نہیں، اگر یہ انسانی اوصاف ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت رکھتے ہیں تو صرف معاشی ترقی کے حوالے سے! ہم اہل مغرب سے بھی چار ہاتھ بڑھ گئے، انہوں نے اپنی معیشت کو ترقی دی ہم نے ذاتی بینک بیلنس بنا کر قوم کو مار ڈالا، کہتے ہیں کہ مظلوم کی آہ سے عرش بھی ہل جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت