3 187

جمہوریت کے نرالے رنگ

پارلیمانی جمہوریت میں انقلاب کا کوئی تصور نہیں ہوتا اس میں دوری کی آخری حد کا نام اختلاف ہوتا ہے اور وہ بھی ایسا اختلاف جو زبان کے دائرے اور امن کی حدود کے اندر رہے۔ جب بھی اس جام کو چھلکنا مطلوب ہو تو عدم اعتماد کا میدان حاضر ہو۔ یہ جام کسی اور انداز سے چھلک جائے تو اسے ایجی ٹیشن کہا جاتا ہے جو ایک نرم انقلاب کی ہی شکل ہوتی ہے۔ یہ معاملہ جمہوریت کی حدود سے باہر ہوتا ہے اور تیسری دنیا کے ملکوں میں اکثر یہ انداز جمہوریت کو ہی لے ڈوبتا ہے۔ جمہوریت کی گاڑی انجر پنجر اور خراشوں سے بھری اور بھدی ہی کیوں نہ ہو اس کا سائلنسر دھواں چھوڑنے کے سوا کسی کام کا نہ ہو مگر اس کے مختلف ٹائر گاڑی کو کھینچتے چلے جانے کے پابند ہوتے ہیں، کہیں اختلاف کے ذریعے تو کہیں اتفاق کے ذریعے وہ اس سسٹم کی لاش کو اُٹھائے رکھنے کے پابند ہوتے ہیں۔ یہاں اپوزیشن کی مدد کے نام اور انداز بھی مختلف اور رنگارنگ اور جدید اصطلاحات سے آراستہ ہوتے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر حکومت نے جو قانون سازی کی اس میں پارلیمانی اپوزیشن نے بہت مہارت اور صفائی کیساتھ حکومت کا ہاتھ بٹا کر جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا اور یوں حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپوزیشن کی بظاہر شدید مخالفت، نعرہ بازی اور واک آؤٹ اور حقیقت میں خاموش تائید کیساتھ انسداد منی لانڈرنگ بل منظور کر لیا۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کچھ نہ حاضر تو کچھ ارکان نے غائب ہو کر اس قانون سازی کو ممکن بنایا، اب یہ بل ملک کا قانون ہیں۔ حکومت کے پاس ان بلز کو قومی اسمبلی سے منطور کرانے کی مطلوبہ اکثریت نہیں تھی، اس لئے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے منظوری کا راستہ اختیار کیا گیا۔ اپوزیشن کے تین درجن ارکان ایوان سے غائب رہے اور یوں اعداد وشمار کے اس گھن چکر میں حکومت تمام بلز پاس کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اپوزیشن کا اعتراض ایف ٹی ایف کے مطالبات اور خواہشات کی تکمیل پر نہیں بلکہ منی لانڈرنگ سے متعلق کچھ ایسے نکات پر تھا جن کو داخلی سیاسی ضرورت کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں ظاہر ہے بے تحاشا منی لانڈرنگ ہوئی ہے اور سیاسی لوگ اس کام میں ملوث رہے ہیں۔ زمینوں پر قبضے، ملازمتوں کی فروخت، بھتوں، چائنہ کٹنگ، بڑے منصوبوں میں کمیشن کی رقوم اس ملک سے مختلف ذرائع سے باہر جاتی رہی ہیں۔ اسی طرح باہر سے آنے والی کچھ رقوم کا تعلق دہشتگردی اور دوسری تخریبی سرگرمیوں سے رہا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو اپوزیشن کو کبیدہ خاطر کئے ہوئے تھا وگرنہ اپوزیشن بخوبی جانتی تھی کہ ایف اے ٹی ایف کے پردے میں کون بول رہا ہے؟ ایف اے ٹی ایف دہشتگردی کے نام پر کچھ ملکوں کے سروں پر پابندیوں کی تلوار لٹکانے کا بہانہ ہے جس کے پیچھے امریکہ کی سوچ اور حکمت کاری صاف جھلکتی ہے۔ امریکہ جن ملکوں کی کلائی مروڑنا چاہتا ہے ایران اور پاکستان جیسے ان ملکوں کے اوپر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا دیتا ہے۔ ان کی ساری توانائی اس تلوار کو ہٹانے میں صرف ہوتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے نام پر پاکستان کے گرد شکنجہ کسنے کا آغاز بھی بھارتی شکایتوں پر ہوا۔ حقیقت میں یہ دہشتگردی کیخلاف جنگ کی طرح ایک کورا کاغذ ہے جس پر نام اور جرم لکھنا باقی ہوتا ہے۔ اس ادارے کا استعمال بھی سیاسی مقاصد کیلئے ہو رہا ہے۔ پاکستان چونکہ پہلے ہی حالات کے بھنور میں گھرا ہوا ہے اس لئے اسے مزید دبانے اور مصروف رکھنے کیلئے ایف اے ٹی ایف کی دلدل میں کھڑا کیا ہے۔ جہاں یہ گرے لسٹ میں کھڑا اور بلیک لسٹ ہونے کے خوف میں مبتلا ہے۔ اس خوف اور ضرورت کے عالم میں پاکستان کو کچھ اقدامات اُٹھانا ہیں۔ ایف اے ٹی ایف پاکستان کو ہر چند ماہ بعد اس کی پیش رفت دیکھ کر عبوری کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ یہ ایک تضحیک آمیز رویہ ہے۔ اب تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی اقساط اور منصوبوں کو بھی ایف اے ٹی ایف کیساتھ جوڑ کر شکنجہ مزید سخت کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ پابندیاں ناپسندیدہ ملکوں کیلئے ایک جال کی حیثیت رکھتی ہیں۔
جن ملکوں کا رزق آزاد نہ ہو، جو روئیں روئیں تک قرض میں ڈوبے ہوئے ہوں، جن کے چولھے کا جلنا قرض کی قسط سے مشروط ہو وہ نہ آزادیو ں کا تحفظ کر سکتے ہیں نہ آزادروی اپنا سکتے ہیں۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ اسے قطرہ قطرہ زہر پلا کر معاشی بدحالی کے موجودہ مقام پر لاکھڑا کیا گیا۔ اس میں سویلین اور فوجی حکمران سب شامل ہیں۔ پاکستان کی اس مجبوری کا فائدہ بیرونی طاقتوں نے اُٹھایا اور انہوں نے پاکستان کو ایک پیراسائٹ ریاست کے طور پر زندہ رکھنے میں دلچسپی لی۔ آج اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف جیسے تھرڈ کلاس اور متعصب اداروں کی جی حضوری کرنے پر مجبور ہے۔ آخر معیشت کا پہیہ بھی تو رواں رکھنا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ کیا اس قانون سازی کے بعد پاکستان کے سر پر لٹکتی بلیک لسٹ کی تلوار ہٹ جائے گی؟ اس کا حتمی جواب ممکن نہیں امریکہ خوش اور مطمئن ہوا تو یہ بات ناممکن نہیں کشمیر اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کی تسلی اور بھارت کی تشفی نہ ہوئی تو تمام خدمات کے باوجود پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ہی رہ سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ''ظلم دیکھ کر چپ رہنا بھی ظلم ہے''