p613 123

حکومت اور اپوزیشن آمنے سامنے

اپوزیشن کی 12جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف صف آراء ہیں ، اس مقصد کیلئے آل پارٹیز کانفرنس طلب کی گئی ، اے پی سی کی میزبانی پاکستان پیپلز پارٹی نے کی، حکومت کی طرف سے میاں نواز شریف کے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کو روکنے کیلئے پیمرا اور دیگر قانونی آپشن استعمال کرنے کے ردعمل پرمریم نواز نے کہا کہ میاں نواز شریف کی تقریر اے پی سی کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی دکھائی جائے گی۔ اے پی سی کے دو نکاتی ایجنڈے میں اگرچہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی کا جائزہ اور مستقبل کی حکمت عملی پرمشاورت شامل تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکومت کو ٹف ٹائف دینے کیلئے تجاویز کا موقع بھی فراہم کیا گیا ۔ اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی پر ردعمل دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ شکست خوردہ کرپٹ مافیا لوٹا مال بچانے کے لیے پھر جمع ہو رہا ہے، وزیر اعظم نے عندیہ دیا کہ ملک اور جمہوریت کی خاطراپوزیشن سے سمجھوتہ ہو سکتا ہے مگر کرپشن پرکسی صورت سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان گونا گوں مسائل میں گھرا ہوا ہے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حکومت اور اپوزیشن مفاہمت کی سیاست کو فروغ دے کر پاکستان کے دیرینہ مسائل کو حل کرنے کی مشترکہ کوشش کرتیں، اپوزیشن مثبت اور فکری تنقید کے ساتھ حکومت کو کام کرنے کا موقع فراہم کرتی تاکہ حکومت اپنے اقتدار کی آئینی مدت میں نان ایشوز میں الجھنے کی بجائے اپنی پوری توجہ عوامی مسائل کی طرف مبذول کر سکتی کیونکہ بہر صورت اپوزیشن بھی جمہوری عمل کا حصہ ہے اور اپوزیشن جماعتوںکو بھی عوامی ووٹ کی حمایت حاصل ہے،جمہوری معاشروں میں انتخابات کے بعد دو گروہ سامنے آتے ہیں، ایک حزب اقتدار دوسرا حزب اختلاف۔حزب اقتدار وہ ہے جسے عوام کی اکثریت ووٹ کے ذریعے منتخب کر کے حکومت بنانے کا اختیار دیتی ہے۔ حزب اختلاف ایک ایسا گروہ ہوتا ہے جو عوامی حمایت حاصل کرنے میں دوسرے نمبر پہ ہوتا ہے۔ حزب اختلاف کے متعلق ہر گز خیال نہیں کیا جانا چاہئے کہ یہ وہ گروہ ہے جو عوامی حمایت سے محروم رہتا ہے۔اگر ہم ترقی یافتہ ممالک میں جمہوری عمل کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہاں عملی طور پراگرچہ حکومت ہی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن معاملات کو سلجھانے میں اپوزیشن کا حصہ بھی حکومت سے کم نہیںہوتا، وہاں حکومت و اپوزیشن دونوں کا مقصود عوام کی نظروں میں سرخرو ٹھہرنا اور ملکی مسائل کا حل ہوتاہے، جب کہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے اس کے برعکس ہوتا ہے، اور گزشتہ ستر برسوں سے ہوتا آرہا ہے ،جان بوجھ کر حکومت کو نان ایشوز میں الجھایا جاتا ہے ، اس طرح حکومت کا جو وقت عوامی مسائل کے حل میں صرف ہونا ہوتا ہے وہ اپوزیشن کے ساتھ غیر ضروری لڑائیوں میں ضائع ہوجاتاہے اور برسراقتدار حکمران جماعت کو پانچ سال پورے ہوتے ہوئے پتہ بھی نہیں چلتا۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین برسوں سے جاری اس کھیل سے عام شہریوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور نہ ہی عام آدمی کو حکومت و اپوزیشن کی لڑائی میںکوئی دلچسپی ہے، کیونکہ عام آدمی کی ضرورت دو وقت کی روٹی کا حصول ہے ، جو ہر گزرتے دن اس کیلئے مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، ایوان میں اپوزیشن کو عوام کی آواز تصور کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کے حالات اس بات کے شاہد ہیں کہ اپوزیشن کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اپوزیشن کا اصل کردار حکومت کو ٹف ٹائف دینا ہے ، سڑکوں چوراہوں پر نہیں بلکہ ایوان میں ۔ حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو اسے راہ راست پر رکھنے کیلئے اپوزیشن کا اہم کردار ہوتا ہے، وہ کردار آئینی اور قانونی ہے، حکومت کیخلاف مؤثر حکمت عملی کیلئے احتجاج کی راہ اختیار کرنا اگرچہ اپوزیشن کا حق ہے لیکن اگر یہی عمل پارلیمنٹ اور ایوان میں قانون سازی کے وقت کیا جائے تو زیادہ مؤثر ثابت ہو سکتا ہے ، اپوزیشن جماعتوںکیلئے کیا یہ دہرا معیار نہیں کہ ایوان سے باہر تو وہ حکومت کی مخالفت کرتی ہیں جبکہ ایوان میں قانون سازی اور بلز کی منظوری کے وقت حکومت کیلئے سہولت کاری کا ذریعہ بن جاتی ہیں،یاد رکھیں ایوان سے باہر اپوزیشن جماعتوںکا احتجاج ، مظاہرے اور جلوس عوامی جذبات کا رُخ موڑنے کا کام کرسکتے ہیں لیکن ایسی سرگرمیاں ملک کی ترقی و فلاح کے لیے قطعی طور پر کارآمد ثابت نہیںہو سکتیں۔ عوامی اور ملکی مسائل کے پیش نظر ضروری ہے کہ حکومت و اپوزیشن اپنی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے مفاہمانہ کردار سے ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کی تدبیر کریں کیونکہ یہی راہ عمل ہے اور اسی میں نجات ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں