2 286

دیکھو روزناموں کی سرخیاں بتائیں گی

آج ستمبر کے مہینے کی21تاریخ ہے اور پاکستان سمیت ساری دنیا میں امن کا عالمی دن منایا جارہا ہے، سکھ چین اور امن وسکون دنیا اور دنیا میں رہنے والے لوگوں کی زندگی کو جنت نظیر بنا دیتا ہے، لیکن ہم جب اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارا دل اس بات پر افسردہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے چہارسو بدامنی شر اور فساد کی کھیتیوں کی کھیتیاں اُگ رہی ہیں اور ان کھیتیوں میں نفرتوں اور کدورتوں کے جو بیچ بوئے جارہے ہیں ان کے بدلے میں ہماری جھولی میں بدامنی کے کانٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں آرہا، دور مت جائیے آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس وقت قدرتی طور پر آپ کے ہاتھ میں آج کا اخبار ہوگا، کیا یہ اخبار ہماری اس بات کی ترجمانی نہیں کر رہا کہ
جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر
ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا
ہر روز شائع ہوکر منصہ شہود پر آنے والا اخبار ہماری اجتماعی زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے، اس آئینہ نما میں ہمارے معاشرے کی اس تصویر کی جھلک کبھی دھندلی سی اور کبھی نہایت واضح نظر آرہی ہوتی ہے جس میں بے سکونی یا بدامنی کے آثار بڑی ڈھٹائی سے اپنا آپ منوا رہے ہوتے ہیں، کہیں کسی کو غیرت کے نام پر قتل کیا جارہا ہے اور کہیں کسی کی آبروریزی کی جارہی ہے، کہیں کسی کی عزت نفس پر حملہ ہو رہا ہے، انا جھوٹ فریب کی عملداری ہے، آپ کے ہاتھ جب بھی کوئی اخبار آئے، ان میں زیادہ تر خبریں لڑائی جھگڑوں، قتل مقاتلوں، خودکشیوں، خودسوزیوں، بدامنی شر اور فساد کے موضوع پر آپ کی نظر وں اور احساس کو خیرہ کرنے لگیں گی، کبھی بھولے سے کوئی سرخی اخبار کے صفحات پر اُمید کی کرن بن کر پھوٹے تو ایسی خبر کی سرخی باخبر رہنے والوں کیلئے دل بہلاوے یا طفل تسلی سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی، خبروں یا اخبار کی ہیڈلائنز میں ہم نے یہ خبر بھی پڑھی تھی کہ منشیات کے کاروبار میں ملوث لوگوں کو پھانسی کی سزا دی جائے گی، لیکن ہم کو روزانہ منشیات کے جرم میں ملوث قیدیوں کو ضمانت پر رہائی کی خبر ملتی ہے تو ہم ایسی خبر کی دھجیاں اُڑتے دیکھ کر اپنا سا منہ لیکر دیکھتے سنتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہ جاتے ہیں، یہاں رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے اور رشوت دیکر رہا ہوگئے کا طاغوتی کلچر پھل پھول اور پھیل رہا ہے، اگر کسی اخبار کی سرخی میں مہنگائی کے ختم ہونے کی نوید سنائی جارہی ہو یا منشیات پر قابو پانے کیلئے مسودہ قانون کی بننے کی خوش فہمی کو عام کیا جا رہا ہے تو جان لیجئے کہ ایسی خبر ان لوگوں کی اشک شوئی کرنے کی ناکام سی کوشش ہے جو اس یا اس قسم کی آگ میں مدتوں سے جل رہے ہیں، یہ بات بہت حد تک سچ ہے کہ اگر قانون اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے ہاتھوں میں قانون کا شکنجہ تھام کر مجرموں کا قلع قمع نہ کر رہے ہوتے تو انسان نما بھیڑئیے انسانوں کو کھانے لگتے، بھلا ہو ان کا جو معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے قانون کی بالادستی قائم کرنے کیلئے شبانہ روز مصروف عمل ہیں، لیکن جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار اور منصب دار قانون اور انصاف کو سرعام بیچتے نظر آتے ہیں، تو قانون سب کیلئے برابر ہے، دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ بن کر ہمارا منہ چڑانے لگتا ہے، قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اس کو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں۔ یہ بات وقت کے دل کی دھڑکن کی چیخ وپکار بن کر معاشرے میں شر، فساد اور بدامنی کا مؤجب بن رہی ہے، غیرت کے نام پر قتل کر دینے والے بدلہ کی آگ میں بھسم کر دینے اور بھسم ہوجانے والے ذاتی، خاندانی، قبیلوں کی، مقامی اور علاقائی دشمنیوں کے علاوہ عالمی سطح پر بھی اس آگ کو جلانے اور اس کو ہوا دینے کے مؤجب ہیں، بھارت میں نہتے کشمیریوں کیساتھ کیا ہورہا ہے، بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کرنے والے اپنے ان کرتوتوں کی وجہ سے اگر عالمی امن کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو یہ نعرہ ان کے منہ پر تمانچہ بن کر ان کو عالمی بدامنی اور ریاستی دہشتگردی کے طعنے دینے لگتا ہے، ہم جب فلسطینیوں کے حقوق کو صلب ہوتا دیکھتے ہیں تو ہمارا دل خون کے آنسو روتے ہوئے پکار اُٹھتا ہے کہ
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا یہ ممکن ہے تم ہی کہو
ظلم وستم جبر واستحصال امن وآشتی کے قاتل ہیں اور آج کے دن ہم نے یہی احساس بیدار کرنے کی اپنی سی کوشش کرنی ہے کہ جنگ وجدل، لڑائی اور جھگڑے، ظلم اور زیادتیاں، مسئلوں کا حل نہیں چاہے یہ قباحتیں خانگی نوعیت کی ہوں، ریاستی یا بین الاقوامی سطح کی، ہم اگر بین الاقوامی سطح پر حقوق کی پامالی اور ریاستی دہشتگردی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی خانگی اور انفرادی سطح کا بھی احتساب کرنا ہوگا، مگر اس کا کیا کیا جائے صبر اور شکر کا دامن چھوڑ چکے ہیں، ہر مسئلہ کا حل ہم شر فساد اور لڑائی جھگڑے میں تلاش کرتے ہیں کہ یہ ہماری زندگی کا خاصا بن چکا ہے جس کی گواہی ہمیں روزانہ شائع ہونے والے اخبارات میں بدرجہ اتم مل جاتی ہے اور ہم یہ بات کرنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے لگتے ہیں کہ
اپنے دیش میں گھر گھر امن ہے کہ جھگڑے ہیں
دیکھو روزناموں کی سرخیاں بتائیں گی

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟