p613 124

جاندار اور نرم بیانیہ کا امتزاجی اتحاد

حزب اختلاف کی جماعتوں نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے نام سے حکومت مخالف اتحاد تشکیل دیتے ہوئے اکتوبر سے حکومت کے خلاف تحریک اور جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے ایک جانب وزیراعظم عمران خان کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا ہے تو دوسری جانب عمران خان سے مخاصمت نہ ہونے اور ان کو لانے والوں سے کام رکھنے کی بات دہرائی گئی حکومت کے واضح اعلان اور وفاقی وزراء کی عدالت سے سزایافتہ اور عدالت میں پیش نہ ہونے والے شخص کی تقریر سنانے پر پیمرا کی چینلز کے خلاف کارروائی کی دھمکی اور آخری وقت میں وزیراعظم کی طرف سے تقاریر ٹیلی کاسٹ کرنے کی اجازت کا معاملہ جہاں شکوک وشبہات کا باعث امر ہے وہاں حکومت میں مشاورت اور ایک بیانیہ نہ ہونے کا تاثر ملتا ہے وفاقی وزراء اگر سماں نہ باندھتے اور حکومت یہ میڈیا پر چھوٹی یا پھر کسی پابندی نہ ہونے کا اگر پہلے ہی اعلان کیا جاتا تو چہ میگوئیاں نہ ہوتیں خود حزب اختلاف کو بھی اس آزادی پر حیرت ہونا بھی فطری امر تھا کیونکہ ان کا ماضی کا تجربہ مختلف تھا بہر حال اس صورتحال سے قطع نظر دیکھا جائے تو حزب اختلاف کا اعلامیہ کوئی جاندار اور ٹھوس لائحہ عمل دینے میں ناکام نظر آتا ہے۔نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کی سوچ میں ہم آہنگی تو نظر آتی ہے لیکن سابق صدر آصف علی زرداری اور شہباز شریف حسب عادت لائن کراس کرنے پر تیار نظر نہیں آتے مریم نواز اور بلاول بھٹو اگر قدم بڑھانے پر بھی آمادہ ہوں تو آصف زرداری اور شہباز شریف اگر راہ کی رکاوٹ نہ بھی بنیں تو ان کا پورا وزن ان کے پلڑے میں شاید ہی پڑے جس کے بغیر حکومت کے خلاف جاندار تحریک ممکن نہیں اسمبلی سے استعفے کا آپریشن روز اول سے مولانا فضل الرحمن کی تجویز رہی ہے جس پر عمل کی صورت میں پیپلز پارٹی کو سندھ حکومت کی قربانی دینی پڑے گی اور ن لیگ کے بڑی تعداد میں پنجاب اور مرکز میں ممبران کو بھینٹ چڑھانا پڑے گا سوال یہ بھی ہے کہ آیا وہ اس کیلئے تیار ہوں گے اور پارٹی کا متوازی بیانیہ کے بھاری پڑنے کے امکانات شاید مسلم لیگ میں جے یو آئی کے ہم خیالوں کو بھی مشکلات کا شکار بنا دے جہاں تک استعفے کیلئے دبائو تحریک چلانے یا پھر اسلام آباد میں دھرنے دینے کا تعلق ہے تو وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں یہی سب کچھ تحریک انصاف خود مسلم لیگ ن کی حکومت میں کر چکی ہے اس وقت سٹبلشمنٹ مخالف اب کے حکومت اور سٹیبلشمنٹ ایک ہی قرطاس پر ہیں پھر اس احتجاج کی کوکھ سے حکومت کی رخصتی یا تبدیلی کیسے جنم لے گی یہ وہ سوال ہے کہ جب تک اس کا شافی جواب حزب اختلاف کی نوزائدہ اتحاد کے پاس نہیں آتا اس وقت تک احتجاج کا مئوثر ہونا اور کسی بڑی تبدیلی پر منتج ہونا مشکل امرنظر آتا ہے۔ اس صورتحال میں اصل منصوبہ کیا ہے کا سوال ہی نہیں اٹھتا بلکہ دیگر سوالات اور ملکی سیاست کے معمولات ومروج امور کے حوالے سے بھی سوالات اٹھتے ہیں ماضی میں ملکی سیاست میں تبدیلی کیلئے سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جو قوتیں کردار ادا کرتی رہی ہیں ایک مرتبہ پھر سوئی وہیں اٹک جاتی ہے فی الوقت ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ کے مصداق بھی نہیں دکھتے البتہ فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ والی صورتحال اس وقت ممکن اور نا ممکن دونوں کے درمیان ہے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد نئی بات نہیں بعید نہیں کہ اس سیاسی خلفشار کے ساتھ موجودہ حکومت مدت پوری کرے البتہ اس اتحاد اور اس دبائو کے اثرات سے آئندہ عام انتخابات حزب اختلاف کیلئے قابل قبول بنانے کی راہ ضرور ہموار ہوگی۔اگرچہ حزب اختلاف کے چھبیس نکاتی تفصیلی اعلامیہ میں بہت سے امور شامل ہیں اور اس حوالے سے حزب اختلاف کے کردار کی بات کی گئی ہے لیکن اس طرح کے نکات پر عملدرآمد میں سیاسی جماعتیں خود عموماً سنجیدہ نہیں ہوتیں یہاں تک کہ حکومت میں آنے کے بعد بھی وہ ان معاملات کو اس طرح سے حل اور طے کرنے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتیں جس کا مطالبہ انہوں نے خود کیا تھا مستزاد سیاسی جماعتیں اپنے منشور تک پر عملدرآمد کی کم ہی زحمت کرتی ہیں بنا بریں حزب اختلاف کے ان مطالبات کی وہ اہمیت نہیں جتنا ان کے نافع اور اصولی ہونے پر ہونی چاہیئے تھی سیاسی اتحادوں کی تشکیل عوامی مسائل کے حل اور آئینی معاملات کو طے کرنے کیلئے واجبی سی ہوتی ہے ان کا بنیادی مقصد کچھ اور ہوتا ہے جس سنجیدگی کے ساتھ نو تشکیل اتحاد مختلف اہم مطالبات دہرا رہی ہے اگر حکومت کو ان مطالبات پر عمل کرنے پر مجبور کرنے کو اولیت دی جائے اور اقتدار کی رسہ کشی کو ثانوی رکھا جائے تو حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان مفاہمت کے راستے ڈھونڈنا دشوار نہیں اور ان کے مطالبات کی عوام میں بھر پور پذیرائی بھی فطری امر ہوگا۔آئندہ چند دنوں میں ہی واضح ہوگا کہ حزب اختلاف کا اصل مطالبہ حکومت گرانا اور وزیراعظم کا استعفیٰ ہے یا پھر وہ دیگر مطالبات اور نکات پر بھی عملدرآمد کے خواہاں ہیں۔اور ان کے اجتماع کا واقعی حقیقی مقصد عوام کے حقوق کا تحفظ اور دستور کی بالا دستی ہے۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر