4 183

نوازشریف، اصل منصوبہ کیا ہے؟

ہفتے کے روز تمام نیوز رومز میں شدت سے یہ چہ مگوئیاں رہیں کہ آیا مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نوازشریف کی تقریر ہوگی بھی یا نہیں، اور اگر ہونی ہے تو کیا اس کو پاکستانی میڈیا براہ راست نشر کر پائے گا۔اپوزیشن کی، اے پی سی کے نام کی بیٹھکیں تو ہوتی ہی رہتی ہیں لیکن اس دفعہ میاں نواز شریف کی دو سال بعد سیاسی واپسی اور تقریر کی وجہ سے ماحول کافی گرم تھا۔ بہرحال ، اتوار کے روز نواز شریف کی تقریر نہ صرف ہوئی بلکہ پوری کی پوری نشر بھی کی گئی۔ میاں صاحب کی تقریر کے دوران سکرین کے بائیں جانب ووٹ کو عزت دو کا لوگو نمایاں نظر آ رہا تھا۔اس لوگو کو دیکھ کر مجھ جیسا سیاسی طالب علم سوچ میں پڑ جاتا ہے۔جب سینیٹ میں الیکشن ہو یا ایکسٹینشن پر ووٹنگ، اس وقت یہ نعرہ تھپک تھپک کر سلا دیا جاتا ہے- جب ن لیگ کی قیادت رات گئے ملاقاتیں کرتی ہیں تب بھی یہ نعرہ کہیںmuteپر لگ جاتا ہے اور جب خواجہ آصف اور شاہد خاقان میں تلخی ہوتی ہے تو اس وقت پتہ نہیں چلتا کہ ووٹ کی عزت کا پاسدار کون ہے اور میاں صاحب کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔ان کھلے تضادات کے ہوتے ہوئے ووٹ کی عزت کی بات زبانی کلامی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ عملی طور پر کیسے اور کیونکر بحال ہو سکے گی؟تقریر تو یقینا بولڈ تھی، اسے سراہنے والے اور رد کرنے والے دونوں ہی موجود ہیں۔کسی کے بقول یہ تاریخی لمحہ تھا اور”سماں بندھ گیا”اور کسی نے اس کو گھسی پٹی قرار دیا۔جتنے منہ اتنی باتیں، ہرکوئی اس تقریر کو اپنے نظریے اور ایجنڈے کی عینک سے جانچے گا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ آگے میاں صاحب کا اصل گیم پلان کیا ہے؟۔کیونکہ جو گیم میاں صاحب نے کھیلنے کا دعوی کیا ہے اس کے لیے ٹیم بھی ضروری ہے۔ان کی صاحبزادی اس ٹیم کی روح رواں تو ہیں مگر باقاعدہ نائب کپتان شہباز شریف کا ہدف تو صرف عمران خان پر لفظی گولہ باری تک ہی محدود ہے۔باقی صفوں میں بھی شہباز کے ساتھ کھڑے ہونے والے زیادہ اور مریم نواز کا ساتھ دینے والے کم ہیں۔مریم نواز میاں صاحب کے ٹوئٹر اکانٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پر تو سماں باندھیں گی۔ اب ایک اکانٹ کے بجائے دو اکانٹ چلیں گے۔ کچھ عرصہ سوشل میڈیا سیل بھی سرگرم رہے گا مگر ووٹ لینے والے ایم این اے اور سینیٹر بدستور ووٹ کی عزت کے بجائے اپنی عزت بچانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔میاں صاحب کی اپنی ٹیم کے ساتھ دیگر اتحادیوں کا کردار بھی اہم ہے۔ اے پی سی کے نتیجے میں 26نکاتی اعلامیہ اور ایکشن پلان سامنے تو آیا ہے لیکن اب سے لے کر جنوری میں ہونے والے لانگ مارچ تک کئی مراحل ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اور محمود اچکزئی کے پاس کھونے کو زیادہ کچھ نہیں اس لیے وہ آل آٹ یعنی استعفے تک جانا چاہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پہلی ترجیح سندھ حکومت اور دوسری نیب کیسز ہیں۔ وفاقی حکومت کے خلاف کارروائی کہیں تیسرے نمبر پر ہی آتی ہے اور وہ بھی اپنے معاملات پر بارگیننگ کے لیے زیادہ اور اصولوں پر کم۔ جن کو میاں صاحب اصل ذمہ دار سمجھتے ہیں پیپلز پارٹی ان کی زیر نگرانی کراچی پلان کا حصہ ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پی پی پی میاں صاحب کے ساتھ ایک حد سے آگے زیادہ نہیں چلے گی۔ شہروں میں انفرادی جلسے آسان ہدف ہے۔ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ ایک دھمکی ہی ہے اور ویسے بھی اسلام آباد سندھ سے اتنا دور ہے کہ پیپلز پارٹی کی شرکت علامتی ہی ہو گی۔ اصل فیصلہ اور اصل قوت ن لیگ اور نواز شریف کو دکھانی ہو گی۔ سوال پھر وہی ہے۔ اے پی سی کا اعلامیہ تو ایک مشترکہ بیانیہ ہے، لیکن میاں نواز شریف کا اصل منصوبہ ہے کیا؟ میاں صاحب نے اپنی تقریر میں ماضی کا بھر پور تجزیہ کیا، جمہوری بیانیے کا اعادہ کیا اور خرابیوں کی نشاندہی کی اور بات پِھر اے پی سی پر چھوڑ دی۔ اے پی سی کا26نکاتی اعلامیہ اپوزیشن، سول سوسائٹی، میڈیا اور علاقائی جماعتوں کے مطالبات دہراتا ضرور ہے اور کچھ مقامات پر کھل کر اسٹیبلشمنٹ کا ذکر بھی کرتا ہے مگر عملی قدم اب بھی غیر واضح اور مبہم ہیں۔اس لیے گیند اصل میں نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔
اس بات میں بھی البتہ کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف سیاست میں بولڈنس اور سرپرائز دینے کی روایت رکھتے ہیں۔ ملک میں آخری کامیاب عوامی تحریک بھی انہوں نے چلائی اور سیاست کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی جی ٹی روڈ بھی ان کے زیر اثر ہے۔ مگر میاں صاحب کے ارادے فی الحال تو ان کی اپنی جماعت سے بھی پوشیدہ ہیں اور وہ بھی عوام اور میڈیا کے ساتھ ساتھ یہی پوچھتے پائے جا رہے ہیں کہ واٹس دا ریئل گیم پلان، میاں صاحب؟ ۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ