3 189

وہ لکڑی کا ہاتھی اُٹھا لے گیا

ہاتھی کو ہاتھی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے اژدہے کی طرح کی لمبی ناک سے ہاتھ اور بازو کا کام لیتا ہے۔ گرچہ اس کی اس لمبی ناک کو سونڈ کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے پھیپھڑوں میں سانس اور منہ میں خوراک بھرنے کے علاوہ بھاری بھرکم چیزیں اُٹھا بھی سکتا اور اُٹھا کر زمین پر پٹخ بھی سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہاتھی دنیا کا قدیم ترین چوپایا ہے، ہاتھی کا سر اس کے جثے یا وجود کی مناسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے، گمان ہے کہ ہاتھی کا سر جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اتنی ہی موٹی عقل کا بھی مالک ہوتا ہے، بڑا مصلحت اندیش جانور ہے، جبھی تو یہ اپنے مالک کیساتھ پنگا نہیں لیتا کہ، ہاتھیوں کو پالنے والے ان کو جو بات سکھاتے ہیں وہ اسے حکم حاکم سمجھ کر بجا لایا کرتے ہیں، اور یوں وہ ہاتھی سے سدھایا ہوا ہاتھی کہلانے لگتا ہے اور ان کی ان صلاحیتوں کو کیش کرنے کیلئے سرکس والے انہیں بڑے بڑے کرتب سکھا کر تماش بینوں سے تالیاں بٹورتے رہتے ہیں، راقم السطور جب اپنے بچوں کے ہمراہ لاہور کے چڑیا گھر کی سیر کیلئے گیا تھا تو اس نے وہاں پر ایسی ہتھنی بھی دیکھی تھی جو چڑیا گھر کی سیر کیلئے آنے والوں کو اپنی کمر پر لادھ کر چڑیا گھر کی سیر کراتی تھی اور وہاں وہ ہاتھی تو کمال کا تھا، جو لوگوں سے کرنسی نوٹ وصول کرکے اپنے مالک یا فیل بان کو دیا کرتا تھا، اگر اسے نوٹ کی بجائے کاغذ کا کوئی ٹکڑا پکڑا دیا جاتا تو وہ اسے مالک کو دینے کی بجائے اس بندے کے منہ پر پھینک دیتا جو ایسی حرکت کرنے کا ارتکاب کرتا، ہاتھی اپنی طاقت سے واقف ہوں یا نہ ہوں، ان کو پالنے پوسنے والے یا ان کی طاقت کو استعمال میں لانے والے ان سے بردباری کا کام لینے کے علاوہ جنگی محاذوں پر بھی اسے طاقت اور قوت کا استعارہ سمجھ کر استعمال کرتے رہے ہیں، تاریخ اسلام میں ہاتھیوں کا خانہ کعبہ پر حملہ آور ہونے والے ابرہہ کے ہاتھیوں کے لشکر کا تذکرہ ملتا ہے جو رب کعبہ کے حکم سے ابابیل کی کنکریوں سے تباہ ہوگیا تھا اور تاریخ ہندو پاک میں ابراہیم لودھی کے ہاتھیوں کے اس لشکر کا ذکر بھی موجود ہے جو پانی پت کے میدان میں ظہیرالدین بابر کے بارود کے دھماکے سن کر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے اور ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے قیام کا سبب بن گئے، اہل ہنود جب بھی ہاتھی کو گھنیش کے نام سے یاد کرکے اس کی پوجا کرتے تھے اور اب بھی اسے گھنیش کہہ کر اس کی پوجا پاٹ کرتے ہیں شائد اس ہی لئے محاورہ گر یا ضرب الامثال پیش کرنے والے کہا کرتے ہیں کہ ”ہاتھی کے پاؤں میں سب کے پاؤں” ایسی باتیں کرنے والے یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ہاتھیوں کیساتھ گنے چوپا نہیں کرتے، گنا ہاتھیوں کا من بھاتا کھاجا ہے، وہ گنوں کا رس نکال کر نوش جان کرنے کی غرض سے ان دانتوں کا استعمال کرتے ہیں جو ان کو قدرت خداوندی کی جانب سے کھانے کیلئے عطا ہوئے ہیں، وگرنہ ان کے چہرے پر آویزاں دکھانے کے دانت بھی ہوتے ہیں جو کسی مچھندر کی رعب دار موچھوں کی طرح ہاتھی کے جبڑوں کیساتھ لٹکے اس کے رعب اور دبدبہ میں اضافہ کرنے کے علاوہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور جیسے محاورے کی توجیہ پیش کرنے کا باعث بنے دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھی پالنا اتنا آسان نہیں، پرانے اور سیانے لوگوں کی یہ بات سینہ بسینہ سفر کرتی ہم تک پہنچی ہے کہ جو ہاتھی رکھتا ہے دروازے بڑے رکھتا ہے اور بڑے بڑے نامتوں کرامتو لوگ ہی ہاتھی رکھ سکتے ہیں، ہماری اس بات کے ثبوت میں کہنے والے کہا کرتے ہیں کہ ہاتھی پھرے گراں گراں، جس کا ہاتھی اس کا ناں، یعنی ہاتھی جہاں بھی جائے گا اپنے مالک کا نام روشن کرے گا۔ کہتے ہیں کہ اگر دو ہاتھی دو دو ہاتھ کرنے لگیں یعنی ایک دوسرے سے دست وگریباں ہونے لگیں تو شامت گھانس پھونس یا پودوں ٹہنیوں کی آجاتی ہے کہ وہ مفت میں کچلے جاتے ہیں لیکن جب دو بندے یا دو ادارے لڑنے لگیں تو ہاتھیوں کی کیسے شامت آتی ہے اس کی خبر ہمیں اس وقت ملی جب چڑیا گھر پشاور والوں کو ماحولیات والوں کی جانب سے یہ کہہ کر ہاتھی لانے کی اجازت نہیں دی گئی کہ یہاں کا موسم اور ماحول ہاتھیوں کیلئے سازگار نہیں، ماحولیات والوں کی یہ بات سن کر پہلے تو ہم چکرائے اور پھر ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر پشاور شہر کے محلہ فیل باناں کے علاوہ ہاتھیوں کے اس جلوس کے متعلق سوچنے لگے جسے محکمہ سیاحت والوں کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پینٹنگ میں بازار کلاں سے گزر کر تحصیل گورگٹھڑی کی طرف بڑھتے دکھایا گیا ہے اور پھر ہماری نظروں کے سامنے تحصیل گورگٹھڑی کے وہ دروازے گھومنے لگے جو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ جو ہاتھی رکھتا ہے دروازے بھی بڑے رکھتا ہے اور پھر ہمیں ظہیر الدین بابر یاد آگیا جس نے پشاور کے جنگلات میں گینڈے کا شکار کیا تھا، اگر ہم ماحولیات والوں کی بات تسلیم بھی کرلیتے ہیں تو چڑیا گھر والوں کو بتائے دیتے ہیں کہ اگر زندہ ہاتھی لاکھ کا ہو تو مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا ہوجاتا ہے، اس لئے ناموافق ماحول میں ہاتھی کو رکھنا گھاٹے کا سودا نہیں، یاد رہے کہ زمبابوے کی ٹیم پشاور کے ماحول اور موسم کو ہاتھی کیلئے موافق قرار دے چکی ہے لیکن اس ستم کو کیا معنی دئیے جائیں کہ
میرا روتا بچہ بہلتا ہے جس سے
وہ لکڑی کا ہاتھی اُٹھا لے گیا

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے