p613 126

بھارت نوازی کے الزامات سے گریز کیجئے

وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنے اس الزام کو دہرایا کہ (ن)لیگ نے اپوزیشن کی اے پی سی کی آڑ میں بھارتی ایجنڈے کو فروغ دیا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن کی اے پی سی ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش تھی۔یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنے مخالفین پر بھارت نوازی کا الزام عائد کر رہی ہے اور یہ الزام برائے الزام کے سوا کچھ نہیں۔وزیراعظم کو یاد ہوگا کہ2014ء میں جب وہ ایک حکومت کے خلاف احتجاجی دھرنا دیئے ہوئے تھے تو اس وقت کی حکومت ان پر ملک دشمنی کا الزام لگاتی تھی۔سنجیدہ سیاسی وصحافتی حلقوں نے اس وقت بھی یہ عرض کیا تھا کہ سیاسی اختلافات میں اتنی دور نہ جائیں کہ آنے والے دنوں میں یہی اختلاف نفرت بن کر گلے پڑ جائے۔یہی مشورہ موجودہ حکمران قیادت کے لئے ہے۔حب الوطنی پر کسی خاص فرد،طبقے یا سیاسی جماعت کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی اور غداری کے الزامات سے محفوظ رکھیں تو یہ سب کے لئے مناسب ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس نے ریاستی محکموں کو بدنام کیا تو اس ضمن میں بھی یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہر دور کی اپوزیشن شاکی ہوئی کہ ریاستی محکمے دستوری حدود سے تجاوزکرتے ہیں جناب وزیراعظم2014ء کے اپنے ڈی چوک والے124دنوں کے دھرنے کے دوران ریاستی محکموں سے اس طرح کے شکوے کیا کرتے تھے۔ہماری دانست میں سیاسی اختلافات کو نفرت انگیز بنا دینے اور ایک دوسرے کے وجود کو برداشت نہ کرنے کے جنون نے جو خرابیاں پیدا کی ہیں ان کے خاتمے پر توجہ دینی چاہیئے تاکہ سیاسی عمل اور نظام آگے بڑھے اور عوامی مسائل حل ہوں۔
آرمی چیف کی پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات
حزب اختلاف کی آل پارٹیز کانفرنس سے ہفتہ بھر قبل آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پارلیمانی لیڈروں سے ملاقات کی خبر اور ملاقات کے دوران ہونے والی گفتگو میں بظاہر کوئی نئی بات نہیں مقبوضہ کشمیر سی پیک اور گلگت بلتستان کے حوالے سے پارلیمانی لیڈروں کو بریفنگ دینے کے لئے ہونے والی یہ ملاقات کوئی انہونی بات نہیں البتہ اگر یہ ملاقات پارلیمان کے کمیٹی روم میں ہوتی اور وزیراعظم بھی اس میں شریک ہوتے تو پاکستان کی وحدت وسلامتی اورتعمیر وترقی کے دشمنوں کو ایک مئوثر پیغام جاتا۔اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں آرمی چیف نے فوج کو سیاست سے الگ رکھنے اور ملکی دستور کی بہر صورت پاسداری کے عزم کا اظہار کیا امر واقع یہ ہے کہ فوج ہو یا کوئی دوسرا محکمہ سبھی دستور میں طے شدہ حدود اور فرائض کے حوالے سے منتخب حکومت سے تعاون کرتے ہیں اور یہ تعاون کوئی نئی بات نہیں خود نون لیگ اپنے ادوار میں واپڈا سمیت دیگر محکموں میں اصلاح کے لئے فوج کی خدمات حاصل کرتی رہی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی طرف سے ریاستی محکموں کو متنازعہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے اور نہ ہی محکموں کو سیاست میں گھسیٹا جائے۔
مقبوضہ کشمیر میں نئے بھارتی ہتھکنڈے
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد بھارتی حکومت آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے لئے بھارت بھر سے انتہا پسند ہندو خاندانون کو کشمیر میں لا بسانے کے ساتھ ساتھ غیر کشمیر باشندوں کو ڈومیسائل جاری کرانے کی سرپرستی میں مصروف ہے۔آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے اسرائیلی طرز کی پالیسی پر عمل اور غیر ریاستی باشندوں کو ڈومیسائل کے اجراء کے ذریعے ہندو توا کی بالادستی اور کشمیریوں کے سیاسی سماجی ومعاشی حقوق کی پامالی کی اس نئی لہر پر عالمی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے۔سلامتی کونسل کو نہ صرف اس صورتحال کا فوری نوٹس لینا چاہیئے بلکہ بھارتی حکومت پر زور دینا چاہیئے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی اور آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی روش ترک کر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کافیصلہ کرنے کا حق دے۔مقبوضہ کشمیر میں آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کے بھارتی اقدامات کے حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کو بھی عالمی سطح پر بھارت کے گھنائونے کردار کو بے نقاب کرنا چاہیئے۔

مزید پڑھیں:  ''ضرورت برائے بیانیہ''