3 190

بی آرٹی ،ڈینٹل سرجنز،بی ایچ یو اور چوکیدار

بی آرٹی چلنے اور اب بند ہونے تک میرے کالم کا بڑا موضوع رہا ہے قارئین نے جن امور کی طرف توجہ دلائی تھی بی آرٹی سروس کے بند ہونے کے بعد وہ تمام خدشات درست ثابت ہوئیں جس کا اظہار قارئین کی طرف سے کیا جاتا رہا اب بی آرٹی کی بندش پر قارئین کا غصہ اور تنقید سے تو واٹس ایب پیغامات کی بھر مار ہے مختلف قسم کے طنز یہ پوسٹ بھی شئیر کی گئی ہیں بہرحال اس کالم میں کسی قسم کی سیاست بازی کی گنجائش نہیں اور نہ ہی یہ مشرق کی پالیسی ہے کہ وہ کسی مہم کا حصہ بنے ہمارا کام عوام کی آراء اور مثبت تنقید حکومت کے سامنے پیش کرنا ضرور ہے جس کا تقاضا ہے کہ مجموعی طور پر بی آرٹی کی بندش سے ٹرانس پشاور کے حکام کو آگاہ کیا جائے کہ بسوں کے افتتاح کے ایک ماہ تین دن بعد بندش سے عوام سخت نالاں ہیں اور ٹرانس پشاور کی استعداد اور اہلیت پر بھی سوال اٹھارہے ہیں بسوں کی خریداری سے لیکر وارنٹی اور آئے روز بسوں کے جلنے اور خرابی کمپنی کے ساتھ ساتھ حکومت کی بھی ساکھ کا سوال ہے جس کا تقاضا ہے کہ جتنا جلد ہوسکے خرابی دور کر کے بسوں کو محفوظ سفر کی سہولت مہیا کی جائے۔جن مزید بسوں کے آنے کا عندیہ دیا گیا ہے وہ بسیں بھی بیڑے میں شامل کر کے کاریڈور پر لایا جائے تو رش میں کمی آئے گی نیز پنک بسیں بھی چلائی جائیں تاکہ خواتین کو سہولت ملے۔ڈاکٹر بلال نے خیبرپختونخوا میں پانچ ہزار میڈیکل آفیسرز بھرتی کرنے کے باوجود صرف دو سو ڈینٹل سرجن بھرتی کرنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او دو ہزار کی آبادی کیلئے ایک ڈینٹل سرجن مقرر کرنے کی سفارش کرتی ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں دس ہزار افراد کیلئے ایک ڈینٹسٹ میسر ہے خیبرپختونخوا میں ڈینٹل سرجنز کی سینکٹروں منظور شدہ آسامیاں خالی ہیں منہ کی بیماریوں کی شرح پاکستان میں کافی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ عوام کو علاج کی سہولت میسر نہ آنا ہے نجی طور پر علاج اتنا مہنگا ہے کہ عوام کی استطاعت سے باہر ہے خیبرپختونخوا حکومت کو جلد کم از کم ایڈہاک بنیادوں پر ڈینٹل سرجنز کی تقرریاں کرنی چاہئیں تاکہ عوام کو علاج کی سہولت اور نوجوان ڈاکٹروں کو روزگار ملے۔ڈاکٹر بلال نے جس مسئلے کا تذکرہ کیا ہے ان کا برقی پیغام مفصل اور کافی ہے محکمہ صحت کو اس مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے جلد سے جلد عوامی مفاد میں اقدامات میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔پرائمری سکول کے ایک چوکیدار نے اپنی برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک مفصل پیغام لکھا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ پرائمری سکولوں میں چوکیدار کی ایک منظور شدہ آسامی ہوتی ہے چوکیدار سے خاکروب،مالی چپڑاسی اور کہیں کہیں گھر کے نوکر تک کا کام لیا جاتا ہے ایک فرد ہونے کے باعث چوکیدار چھٹی بھی نہیں کرسکتا دن اور رات ڈیوٹی پر مجبور ہوتا ہے سرکاری قوانین کے تحت کسی ملازم کی ڈیوٹی آٹھ گھنٹے ہوتی ہے یہاں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ہے اور اس میں بھی کئی کئی کام کرنے پڑتے ہیں واقعی یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس کی قوانین اجازت نہیں دیتے اضافی ڈیوٹی اور کئی کئی کام لینے کی کوئی گنجائش نہیں محکمہ تعلیم کے حکام اس مسئلے کا کوئی حل نکالیں کم از کم اتنا تو ہونا چاہیئے کہ ضرورت پڑنے پر چھٹی کی جاسکے فیڈرل سول ڈیفنس ٹریننگ سکول پشاور وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ ہے اس کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ کارکن نے شکایت کی ہے کہ ان کے سکول میں تعلیمی قابلیت اور حقداروں کو مختلف اسامیوں پر کھپانے کے کم تعلیمی معیار کے کارکنوں کو مختلف عہدوں پر میرٹ کے برعکس تعینات کیا گیا یہاں تک کہ بعض کا تعلیمی معیار اس عہدے کیلئے مطلوبہ تعلیم سے بھی کم تھا یہ سراسر نا انصافی اور حقداروں کی حق تلفی ہے جس کا وزارت داخلہ کونوٹس لینا چاہیئے اتفاق سے کل ہی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اگر وہ غلط کام کریں تو لوگ ان کی گاڑی کو پتھر ماریں ہم ان کی گاڑی کو پتھر نہیں مارتے ان سے صرف مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان خود ساختہ تقرریوں کا نوٹس لیں اور قانون کے مطابق حقداروں کی تقرریاں کروائے۔ سرکاری دفاتر میں اس طرح کی شکایات اکثر ہوتی ہیں لیکن شکایات کی جب تحقیقات ہوتی ہیں تو اکثر غلط فہمی کا نتیجہ نکلتی ہیں بہرحال اس شکایت کی وضاحت اور تحقیقات ہونی چاہیئے اور اگر ناجائز تقرریاں ہوئی ہیں تو ان کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔دروش ارندو اور مدکلشٹ تک ایک بڑی تحصیل ہے جہاں کے ایک قاری نے بی ایچ یو دروش میں لیڈی ڈاکٹر کی عدم موجودگی اور بار بار تبادلے کرانے شکایت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے علاقے کیلئے کم از کم دو میڈیکل آفیسرز اور ایک لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت ہے اس طرح کے مسائل اپر چترال میں مزید سنگین ہیں لوئر چترال کے اہم تحصیل دروش میں جب یہ صورتحال ہے تو لوٹکوہ ،مستوج،موڑ کہو توکہو اور دیگر دور دراز علاقوںلاسپور،یارخون اور بروغل میں صورتحال اور خراب ہوگی۔ایک جانب حکومت صحت کارڈ دے کر عوام کو مفت علاج کی سہولت دے رہی ہے تو دوسری جانب جہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے وہ میسر ہی نہیں تو صحت کارڈ لیکر عوام پشاور جائیں کیا کریں مسئلہ سنجیدہ اور توجہ طلب ہے اور مطالبہ فوری حل کا متقاضی ہے وزیر صحت کو اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہیئے۔قارئین اپنی شکایات اور مسائل اس نمبر 0337-9750639 پر میسج اور وٹس ایپ کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟