p613 125

وحدت امت کانفرنس کا اعلامیہ

ایوان صدرمیں منعقد ہونے والی”وحد ت کانفرنس”کے دس نکاتی اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ مذہب کے نام پر دہشت گردی،انتہا پسندی فرقہ وارانہ تشد قتل وغارت گری خلاف اسلام ہے تمام مکاتب فکر اور تمام مذاہب کی قیادت اس سے لا تعلقی کا اعلان کرتی ہے۔حکومت نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے۔قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ،وفاقی وزیر مذہبی امور قاری نورالحق قادری،آزاد کشمیر کے صدرمسعود خان اور مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے اس امر پر زور دیا کہ علمی وفقہی اختلافات کو عوامی اجتماعات میں بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔تفرقہ بازی سے ہر صورت میں بچ کر آگے بڑھنا ہوگا۔کانفرنس کے نام اپنے پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے کہا مسلمانوں میں نفاق پیدا کرنے والے اسلام اور مسلمانوں کے دوست نہیں ہیں۔متحد ہو کر ہی درپیش مسائل ومشکلات اور چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حالات اور خصوصاً فرقہ واریت کی حالیہ لہر سے پیدا شدہ مسائل کے حوالے سے وحدت کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے کانفرنس کا دس نکاتی اعلامیہ جملہ اہل اسلام کے جذبات کی ترجمانی اور ہمارے آج کی ضرورت ہے۔وحدت امت کانفرنس کا اعلامیہ یقیناً حقیقت پسندانہ ہے اگر ایک قدم آگے بڑھ کر یہ تجویز بھی پیش کی جاتی کہ پانچوں مسلم مکاتب فکر اپنے دینی مدارس کے نصابوں میں سے ردوتکفیر کے مضامین نکال کر ان کی جگہ جدید تقاضوں سے عبارت مضامین شامل کریں تو یہ زیادہ مناسب ہوتا اور اس کے دورس نتائج حاصل ہو سکتے تھے فرقہ وارانہ تقاریر پچھلی بد مزگی اور عدم برداشت کی بنیادی وجوہات کو نظر انداز کر کے آگے برھنے کا مطلب ڈنگ ٹپائو فہم کے علاوہ کچھ نہیں۔کانفرنس کو اپنے اعلامیہ میں دستور میں کی گئی مسلمان کی متفقہ تشریح کو بھی حصہ بنانا چاہیئے تھا۔بد قسمتی یہی ہے کہ فرقہ وارانہ تعصبات اور نفرتوں کے پجاری پاکستان کے آئین میں کی گئی مسلمان کی تعریف سے نابلد ہیں ان میں سے ہر شخص یہی تاثر دیتا ہے کہ وہ اوراس کے ہم خیال ہی مسلمان ہیں۔یہ سوچ کسی بھی طرح درست نہیں۔وحدت امت کانفرنس نے پیغام پاکستان کو جو کچھ عرصہ قبل ایوان صدر میں منعقدہ علما کانفرنس میں منظور کیا گیا کی روشنی میں قانون سازی پر زور دیا بلاشبہ اصلاح احوال کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن بعد احترام ان علمائے کرام کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا چاہیئے کہ فتنہ فساد کے بعد پیغام وحدت یا پیغام پاکستان کے اعلان سے کہیں مناسب اور بروقت عمل یہ ہے کہ وہ اپنے اپنے مکاتب فکر کے داخلی ماحول میں موجود تعصبات عدم برداشت اور تکفیر کے فہم کو پروان چڑھانے والے نظریات وکتب کے حوالے سے بھی کوئی مئوثر لائحہ عمل وضع کریں۔کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ جو ملک اسلام کے نام پر بنا ہو اس میں پچھلے73برسوں سے سب سے زیادہ نقصان اسلام کو ہی پہنچا اور وہ بھی ان افراد کے ہاتھوں جن پر وحدت ملی۔شرف انسانی اور اسلام کی حقیقی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری تھی۔فرقہ پرستی کا جن راتوں رات بوتل سے نکل کر بے قابو نہیں ہوا اس کی بہت ساری وجوہات ہیں اور اہم ترین وجہ خود مختلف مکاتب فکر کے مدارس مراکز میں پڑھائے جانے والے نصاب ہائے تعلیم ہیں اس طور یہ عرض کرنا درست ہوگا کہ اولاً مدارس کے نصاب ہائے کو جدید خطوط پراستوار کیجئے۔ثانیاً مناظروں اور تکفیر کے جنون کا شکار افراد کو مذہبی اجتماعات میں خطاب سے روکا جائے۔ثانیاً اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ مسلمان کی وہی تعریف معروف ہو جو دستور پاکستان میں درج ہے اضافی شرائط اور خصوصاً عقیدوں کے فہم کو طے شدہ امور پر مسلط نہ کیا جائے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فرقہ وارنہ کشیدگی کے پھیلائو سے پیداشدہ خطرات سے قوم وملک کو نجات دلانے کے لئے صدر مملکت نے چند ماہ کے اندر مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام کو ایک جگہ لا بٹھانے میں بنیادی کردار ادا کیا وحدت ملی سے ان کی حجت اور اتحاد امت کا جذبہ خوش آئند ہے۔لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ جو علمائے کرام ایسے اجتماعات میں اسلامی تعلیمات وحدت واخوت کی باتیں کرتے ہیں وہ اپنے اپنے مسلکوں کے اجتماعات میں خطاب کے دوران ان باتوں کو نظر انداز کیوں کر دیتے ہیں؟لائق تحسین اعلامیہ وحدت سے اس ملک کا عام مسلمان اس وقت ہی فیض یاب ہوگا جب ہر مکتب فکر کے ذمہ داران تکفیر وتوہین اور تنقیص کے مرتکب افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کو انا کا مسئلہ نہیں بنائیں گے بلکہ قانون کی بالا دستی کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ہم امید کرتے ہیں کہ وحدت امت کانفرنس کے دس نکاتی اعلامیہ کی روشنی میں نہ صرف قانون سازی(اگر ضرورت ہو تو) کی جائے گی بلکہ اس پر عمومی عمل کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ