p613 128

مشرقیات

بکر بن خنیس کہتے ہیں: ہمارے ہاں کافی عرصے سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن ہم لوگ بارش کی دعا کے لئے نکلے۔ ہمارے ساتھ امیر شہر اور قاضی نے بھی بہت خشوع و خضوع سے گڑ گڑا کر دعا مانگی۔ امیر شہر نے لوگوں کو حکم دیا: واپس چلو۔ اس وقت آسمان بادلوں سے بالکل خالی تھا’ بارش کے کوئی آثار نہ تھے’ بکر کہتے ہیں:میں نے اپنی دائیں جانب دیکھا’ ایک کالے رنگ کا حبشی اپنے اوپر چادر لئے ہوئے تھا۔ لوگ میدان سے اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے کہ میں نے اس کو غور سے سنا۔ وہ چادر منہ پر لئے اپنے مولا سے دعا کر رہا تھا۔ مجھے اس کی دعا کے الفاظ بڑے عمدہ لگے’ وہ کہہ رہا تھا: ”اے اللہ! ابھی ابھی ہم پر رحمت کی بارش نازل فرما اور اپنے بندوں کو خوش و خرم گھروں کی طرف واپس لے جا”۔ بکر بن خنیس کہتے ہیں: ابھی اس نے دعا ختم ہی کی تھی کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور نہایت تیز بارش شروع ہوگئی۔ میری خواہش تھی کہ میں اس حبشی سے تعارف حاصل کروں مگر میں نے دیکھا کہ وہ ہجوم میں غائب ہوچکا ہے۔ تلاش بسیار کے باوجود وہ مجھے کہیں نہ ملا۔ مشہور محدث عبداللہ بن مبارک ایک مرتبہ کسی سرائے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں ان کی مجلس میں ایک بہت خوبصورت نوجوان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہیں بتایاگیا: یہ ایک عیسائی لڑکا ہے اور اس کا نام حسن بن عیسیٰ ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ” اے اللہ! اس نوجوان کو اسلام کی دولت نصیب فرما” وہ لڑکا چند روز تک عبداللہ بن مبارک کی مجلس میں آتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو قبول فرما لیا۔ وہ نوجوان کلمہ شہادت پڑھ کر دین اسلام میں داخل ہوگیا۔
(بحوالہ: سیر اعلام النبلائ12/29:)
مشہور عباسی خلیفہ مہدی کے دور کی بات ہے کہ ایک دن بہت تیز آندھی اور طوفان آیا۔ آسمان کالا ہوگیا’ لوگوں نے سمجھا: قیامت برپا ہوگئی’ اس واقعہ کے راوی دائود بن رشید کہتے ہیں: خلیفہ کے معتمد خاص سلمان نے ایوان خلافت میں دیکھا کہ مہدی نظر نہیں آرہا۔اس نے ادھر ادھر تلاش شروع کردی۔ ایک طرف اس نے دیکھا تو خلیفہ نے مٹی پرسر سجدہ میں رکھا ہوا تھا اور بار گاہ الٰہی میں اس طرح دعا کر رہا تھا: ”اے اللہ ہمیں ہلاک کرکے ہمارے دشمنوں کو خوش اور ہمارے نبیۖ کو پریشان نہ کر۔ اللہ! اگر میرے گناہوں کے باعث عام لوگوں کو تونے پکڑنے کا ارادہ کرلیا ہے تو میری یہ خطا کار پیشانی تیرے سامنے حاضر ہے۔” سلمان کہتا ہے کہ خلیفہ نے جیسے ہی دعا ختم کی’ آندھی اور طوفان تھم گیا اورہر چیز پہلے کی طرح اپنی جگہ پر آگئی۔
(بحوالہ: سیر اعلام النبلائ7/402:)

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!