3 192

لہولہان ہوا شہر ان کے جھگڑوں میں

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
تماشا تو بہرحال ہوا مگر خبریں اُلٹی پڑنے کی آرہی ہیں اور اب فریق اول کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے یا کم ازکم یہ تاثر ضرور پختہ ہو رہا ہے کیونکہ فریق دوم نے دھوپی پٹڑا مار کر خفیہ ملاقاتوں کی نشاندہی کر دی ہے بلکہ ایک بزعم خود ”ترجمان” نے بڑے بڑے پارساؤں کی ”خفیہ” ملاقاتوں کو طشت ازبام کرنے کی تڑی بھی لگا دی ہے کہ انکار کی صورت میں وہ ایسی ایک ملاقات کی تاریخ اور جگہ بھی بتا سکتے ہیں حالانکہ اسی ”ترجمان” کے حوالے سے بلاول بھٹو نے گزشتہ روز یہ کہا تھا کہ وہ جن کا ترجمان ہے وہی اسے چپ کرائیں، دوسری جانب متعلقہ خودساختہ ترجمان نے ایک سابق گورنر کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے اس پر سابق گورنر نے بھی ”ترجمان” کو مزید ”جھوٹ” بولنے سے روکتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ چپ نہ ہوئے تو وہ بھی مجبوراً تمام تفصیلات ثبوتوں کیساتھ سامنے لے آئیں گے۔ اب اس صورتحال میں جسے اردو محاورے کے مطابق کان پڑی آواز سنائی نہ دینے کے الفاظ دیئے جاسکتے ہیں اور جس کی ابتداء بڑے میاں صاحب نے گزشتہ دنوں اے پی سی اجلاس میں ویڈیو لنک سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی دھماکہ کیا تھا یعنی ”اصل” مقتدر حلقوں پر برسنے کی کوشش کی تھی اس کا جواب آں غزل بعض سیاسی رہنماؤں کے حالیہ ملاقات اور کچھ ملکی سیاسی معاملات پر مشاورت کرنے کی اندرونی کہانی سامنے لانے کی صورت دیدیا تھا، اب اس پر بڑے میاں صاحب نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کو سختی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہئے تاہم اس سارے معاملات میں اندر کی کہانیاں سامنے آنے سے جس شرمندگی کا احساس سیاسی فضا پر چھایا ہوا ہے اس پر ماضی کے سیاسی رویوں پر قوم سے معافی مانگنا تو بنتا ہے کیونکہ توبہ کرنے کا اصول بھی یہی ہے کہ سابقہ رویوں پر شرمندہ ہوا جائے، اگرچہ میاں صاحب کے یہ الفاظ بھی اہم ہیں کہ ”کس طرح بعض ملاقاتیں سات پردوں میں رہتی ہیں اور بعض کی تشہیر کر کے مرضی کے معنی دئیے جاتے ہیں” مگر سیانوں کی باتوں پر غور نہ کرنے سے ہی تو ایسی صورتحال جنم لیتی ہے جسے اگر مرزاغالب ہی کی نظر سے دیکھا جائے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
سوال مختلف حلقوں میں یہی گردش کررہا ہے کہ آخر ان لوگوں کو ایسی ملاقاتوں کی ضرورت ہی کیا ہے، ادھر گزشتہ روز ایک ٹی وی چینل پر ایک تجزیہ کار کو یہ کہتے بھی سنا گیا کہ جو ملاقاتوں کیلئے جاتے ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو ”حضور آپ ٹیک اوور کیوں نہیں کرتے؟” کا بیانیہ ساتھ لیکر جاتے ہیں۔ اب یہ تو متعلقہ تجزیہ نگار ہی بہتر جانتے ہیں کہ ایسی دعوتیں دینے والے کون ہوسکتے ہیں، تاہم جس بزعم خود ترجمان کی اوپر کے سطور میں تذکرہ آیا ہے وہ تو نہ جانے کب سے یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ سیاسی رہنماؤں کی اکثریت ایک خاص ادارے کے گیٹ نمبر4 کے ذریعے ملاقاتوں کیلئے آتے جاتے ہیں اور یہ کہ اکثر کی تو اسی ادارے کی نرسری کی پیداوار ہیں، ان کی اس بات میں بڑی حد تک صداقت تو ہے تاہم اسے بقول جسٹس کیانی ”ناٹ دی ہول ٹروتھ” قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ پورا سچ نہیں ہے۔ اس قسم کی ملاقاتوں کے بارے میں متعلقہ ادارے کی جانب سے خبر سامنے آنے کے بعد البتہ مریم نواز نے جو بات کی ہے اس کی اہمیت ہے تو ضرور کہ قومی معاملات پر صلاح مشورہ صرف اور صرف ایوان نمائندگان یعنی پارلیمنٹ میں ہی ہونا چاہئے اور جسے بھی آنا ہے وہ پارلیمنٹ میں آئے۔ لیکن مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کو انہی سیاسی رہنماؤں نے جس طرح (معاف کیجئے گا) بے توقیر کر رکھا ہے اس کے بعد یہ بیان بے معنی ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ماضی کی روایات کے برعکس سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کے رویوں پر ”جانبدارانہ” تبصرے کئے جاتے ہیں اصولی طور پر نہ صرف یہ دونوں عہدے مکمل غیر جانبدار ہونے چاہئیں کہ ان پر براجمان ہونے کے بعد متعلقہ افراد کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو برابری کی سطح پر رکھنا پڑتا ہے بلکہ صدر مملکت اور صوبوں کے گورنرز بھی سیاسی جماعتی سطح سے اوپر اُٹھ کر کارکردگی دکھاتے ہیں مگر موجودہ سیاسی تناظر میں معاملات ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیںکچھ کی تصویر دکھا رہے ہیں۔ یہ کھلم کھلا پارٹی پالیٹکس کے زیراثر ہیں یوں ان کی غیرجانبداری پر شکوک وشبہات کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ پوری سیاسی قیادت اب اپنے ماضی کے رویوں سے رجوع کرتے ہوئے طے کرلیں کہ سیاسی معاملات کو صرف اور صرف پارلیمنٹ ہی کے ذریعے نمٹایا جائے گا۔
وہ جنگ اپنی اناؤں کی لڑ رہے تھے مگر
لہولہان ہوا شہر ان کے جھگڑوں میں

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے