1 247

مفت علاج کے دعوے

علاج بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہے، جن ممالک میں فلاحی ریاست کا تصور ہے وہاں پر شہریوں کو علاج کی سہولیات ریاست کی طرف سے مفت فراہم کی جاتی ہیں، ہمارے ہاں بھی ہر حکومت کی طرف سے مفت علاج کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اب بھی کروڑوں لوگ علاج کی سہولت سے محروم ہیں اور علاج کی سکت نہ ہونے کی بنا پر بے بسی کے عالم میں جان دیتے ہیں، موجودہ حکومت کی طرف سے ادویات کی قیمتوں میں مسلسل دوسری بار اضافہ کیا گیا ہے، اب کی بار تو ہوشربا حد تک اضافہ کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے 94 دواؤں کی قیمتوں میں9تا 262فیصد تک اضافے کی منظوری دی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق بخار، سردرد، امراض قلب، ملیریا، شوگر، گلے میں خراش اور فلو کی دوائیں مہنگی کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹکس، پیٹ درد، آنکھ، کان، دانت، منہ اور بلڈ انفیکشن کی دواؤں کی قیمت میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومتی ترجمان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ مارکیٹ میں دواؤں کی دستیابی کم ہونے سے وفاقی حکومت کو مجبوراً اضافہ کرنا پڑا۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے دواؤں کی قیمتیں بڑھنے کا یہ جواز پیش کیا ہے کہ جو دوائیں مہنگی ہوئی ہیں وہ لائف سیونگ اور پرانے فارمولے والی ہیں، ان دواؤں کی قیمتوں پر مناسب تبدیلی نہ آنے سے یہ مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہیں اور غائب ہونے والی دوائیں بلیک میں ملنے لگتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ دواؤں کی قیمتیں ایسی ہوں کہ سب کی پہنچ میں ہوں، وہ ادویات جو لوگوں کو مہنگی مل رہی تھی اب باآسانی دستیاب ہوں گی، حکومت اور ڈریپ کا کام دواؤں کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے، مارکیٹ میں ناپید دواؤں کی قیمت کو تھوڑے سے اضافے کی ضرورت تھی۔ معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ ہم نے ادویات کی قیمتیں اتنی بڑھائی ہیں کہ لوگوں تک پہنچ سکیں، ہم دواساز کمپنیز کے دباؤ میں نہیں آئے، ایک نئی پرائسنگ پالیسی پر کام کر رہے ہیں اور تمام صحت کے اداروں میں ریفارمز لارہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ2018ء میں ادویات کی قیمتوں کے بارے میں پورے پاکستان کیلئے ایک پالیسی بنائی گئی تو اس میں دواساز کمپنیوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ہر نئے مالی سال کے آغاز میں ملک میں پائی جانے والی مہنگائی کی شرح کے مطابق کسی حکومتی مداخلت یا اجازت کے بغیر ادویات کی قیمتوں میں خودبخود اضافہ کر لیں لیکن ان کو پابند کیا گیا کہ زندگی بچانے کیلئے ضروری ادویات کیلئے یہ اضافہ7فیصد سالانہ اور باقی دواؤں کیلئے10فیصد سالانہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اختیار 15 جولائی 2020 ء کو وفاقی محکمہ صحت کے ذیلی ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی طرف سی جاری کئے گئے، ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے تحت دواساز کمپنیاں خودبخود کسی بھی دوا کی قیمت میں اضافہ نہیں کر سکتیں بلکہ ہر مالی سال کے شروع میں وہ ڈریپ کو حساب لگا کر بتائیں گی کہ کس دوا کی قیمت میں کتنا اضافہ کیا جائے۔ یہ حساب کتاب وصول ہونے کے 30 دن کے اندراندر ڈریپ خود قیمتوں میں اضافے کا اعلان کرے گی۔ اسی نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت مربوط وجوہات کو بنیاد بناتے ہوئے کسی بھی دوا کو قیمتوں میں اضافے کے اس نظام سے باہر نکال سکتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دوا پر یا تو سالانہ اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا یا کمپنیوں کو اپنی مرضی سے اس کی قیمت بڑھانے کا اختیار ہوگا۔پاکستان میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کا طریقہ کار نہ ہونے کی بنا پر غیرملکی دواساز کمپنیاں پاکستان سے اپنا کاروبار ختم کر رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ حکومت کی طر ف سے حالیہ اقدام اسی خطرے کو کم کرنے کے پیش نظر اُٹھایا گیا ہے، غیرملکی دواساز کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم فارمابیور کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دواسازی کی صنعت کی بنیاد غیرملکی کمپنیوں نے ہی رکھی تھی، ان کے سرمائے اور تحقیق نے پاکستان میں دواسازی کی صنعت کو پروان چڑھایا تاہم بدقسمتی سے دواسازی سے متعلق پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بہت سی غیرملکی کمپنیوں کو پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس جانے پر مجبور کر دیا جو غیرملکی کمپنیوں کی پاکستان میں گھٹتی تعداد سے واضح ہے۔ مقامی کمپنیاں بھی قیمتیں مقرر کرنے کی پالیسی کے بارے میں تحفظات کا شکار ہیں اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کیساتھ ملکی کمپنیوں کے کاروبار پر بھی اثر پڑا ہے۔ پاکستان کی ادویہ ساز مقامی کمپنیاں اس صنعت سے کس قدر نفع کما رہی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقامی کمپنیاں ہر سال سینکڑوں ڈاکٹروں کو بیرون ملک سیر وتفریح پر بھیجتی ہیں اور ڈاکٹروں پر لاکھوں خرچ کرکے عوام سے کروڑوں اربوں روپے کمانے کی راہ ہموار کی جاتی ہے لیکن یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادویات کی قیمتوں میں توازن رکھے کہ نہ تو صنعت کو کوئی خطرہ لاحق ہو اور نہ ہی ادویات عوام کی قوت خرید سے دور ہوں۔

مزید پڑھیں:  بجلی اور گیس لوڈشیڈنگ