2 290

کشمیر میں کرکٹ کا انوکھا انداز

یہ عجیب وغریب منظر صرف بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ہی دیکھا جاسکتا ہے جہاں دو مقامات پر ہمیشہ کافی بھیڑ رہتی ہے۔ ایک اگر کسی کی تدفین ہو رہی ہو خصوصا اگر کسی بندوق بردار کی تدفین ہو یا اگر کرکٹ کا میچ کھیلا جا رہا ہو۔ آپ کو شاید یہ بھی معلوم ہوگا کہ وادی میں کون سے الفاظ زبان زدعام ہیں۔ جی ہاں آزادی یا کرکٹ۔جس طرح بیشتر عوامی حلقوں میں جذبہ آزادی کا جنون کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اسی طرح کرکٹ کھیلنے کا ایسا چسکا ہے کہ وہ کہیں پر بھی بیٹ لیکر کھیلنے لگتے ہیں، چاہے کرفیو ہو، پابندیاں ہوں، یا ہڑتال۔۔کرکٹ کے شیدائیوں کو کسی سے کوئی غرض نہیں۔ میدان ہو نہ ہو کوئی فرق نہیں پڑتا، گلی، کوچہ یا گھر سب کرکٹ کے گراؤنڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایسا محال ہی کوئی محلہ، گلی یا علاقہ ہوگا جہاں بچوں یا نوجوانوں نے اپنی ٹیمیں نہ بنائی ہوں حالانکہ گزشتہ 30برسوں سے پرتشدد حالات کی وجہ سے نہ تو انہیں کھیلنے کے مناسب مواقع ملے ہیں اور نہ اس جانب کسی حکومت نے توجہ ہی دی ہے۔سرکاری حلقوں نے ہر کھیل، ہر مجمع یا ہر ہجوم کو امن عامہ کے زمرے میں ڈال کر عوام کیلئے تفریح حاصل کرنے کے تمام راستے مسدود کر دیئے ہیں۔ بچے ایک سال سے زائد عرصے سے سکول نہیں گئے اور تعلیم کے عالمی اداروں نے اس پر افشا بھی نہیں کی مگر اس کا توڑ کرنے کیلئے جہاں کشمیری باورچی خانے سکول بن گئے ہیں وہیں مکانوں کی اوپر والی منزلیں جو شادی بیاہ کیلئے کھلی اور کشادہ رکھی جاتی ہیں آج کل کرکٹ کے گراؤنڈ بن چکے ہیں۔ گزشتہ برس پانچ اگست کے بعد بچے، نوجوان، بیمار اور بزرگ سخت بندشوں اور سیکورٹی پہروں کے اندر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ایسے میں جب حال ہی میں شوپیان میں ایک بندوق بردار کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک کرکٹ میچ کا انتظام کرنے کی خبر آئی تو حکومت کیلئے یہ اداے قاتلانہ خفت کا باعث تو تھی ہی مگر بعض عوامی حلقوں میں اس کی پذیرائی بھی ہوئی اور بجائے ماتم کرنے کے نوجوان بندوق بردار کو جو جذبہ آزادی سے سرشار ہونے کیساتھ ساتھ کرکٹ کا شیدائی تھا یاد کرنے کا ایک بہترین طریقہ تصور کیا گیا۔بعد میں خبر پھیلتے ہی 20سے زائد نوجوانوں پر انسداد دہشتگردی کے قانون کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی بلکہ بعض کے بارے میں اطلاع ملی کہ انہیں اس جرم کے پاداش میں ذد وکوب بھی کیا گیا۔اس سے قبل بعض نوجوانوں نے پاکستانی کرکٹ ڈریس پہن کر ہزاروں شیدائیوں کو جمع کر کے جاوید میاں داد کے چھکے کی یاد تازہ کر دی تھی، میچ ختم ہونے کے بعد علاقے میں سناٹا چھا گیا۔برہان وانی کے علاقے ترال سے تعلق رکھنے والے نوجوان اور ان کے ہم جماعت محمد عارف (نام سیکورٹی کی وجہ سے تبدیل کیا گیا ہے) کہتے ہیں کہ میں نے برہان کو کئی مرتبہ کرکٹ کھیلتے دیکھا ہے حالانکہ ان کے پیچھے سیکورٹی والے24گھنٹے تعاقب میں رہتے تھے۔ وہ اچانک نمودار ہو کر بیٹ سنبھالتے۔ ان کے چہرے پر خوف نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ ان کے دوسرے ساتھی تاک میں آس پاس کھڑے رہتے۔ علاقے کے نوجوان انتظار میں کرکٹ میدان میں موجود رہتے۔بندشوں، ہراساں وپریشان کرنے کی مسلسل کارروائیوں کے باوجود اگر آپ کسی بھی علاقے میں جائیں گے تو نوجوانوں کو یا کرکٹ کھیلتے دیکھیں گے یا سرگوشیوں میں آزادی کے بارے میں بات کرتے سنیں گے۔چند روز پہلے سرحدی ضلع کپواڑہ سے کرکٹ کی ایک اور دلچسپ خبر نے پھر اس کھیل کو اخبارات کی سرخیوں میں لایا۔ ٹیکی پورہ کی علاقائی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ختم ہوا تو مین آف دی میچ ایوارڈ دینے کیلئے کچھ نہیں تھا۔ نوجوانوں نے قریب بہنے والے دریا سے مچھلی پکڑ لی جو پلیئر آف دی میچ، فرحت خان کو دی گئی جس کی فوٹو کرکٹ کے شائقین نے سوشل میڈیا پر شائع کی۔لولاب کرکٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ فرحت خان جموں وکشمیر پولیس میں بحیثیت سپاہی کام کرتے ہیں اور کرکٹ کھیلنے کا جنوں بچپن سے ہے۔ فرحت خان پاکستان کے شاہد آفریدی کو اپنا اُستاد مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لالا جیسا کرکٹ کوئی نہیں کھیلتا، وہ چھکے لگانے کا بادشاہ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پولیس میں رہ کر لالا کی تعریف کر رہے ہو، کیا اس سے آپ کو مسئلہ تو نہیں ہوگا؟اگر ہم کرکٹ کو بھی سرحد کے اندر بند کرنے لگے تو پھر دنیا میں ہر کوئی اس کھیل کو اپنی گلی تک محدود رکھنے پر مجبور ہو جائیگا۔ میں شاہد آفریدی کو اپنا گرو مانتا ہوں اور اگر یہ کہنے پر مجھ پر غداری کا الزام عائد ہوگا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ٹیکی پورہ کرکٹ ٹیم میں شامل نوجوان گوکہ ہر چیز آپس میں بانٹتے ہیں مگر مین آف دی میچ پانے والے فرحت خان نے پہلی بار ذرا سی کنجوسی کا مظاہرہ کیا جب انہوں نے مچھلی پکا کر اس کو اکیلے میں کھایا۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میچ چونکہ لمبا تھا، کافی دیر کریز پر موجود رہنے سے پروٹین کی کمی محسوس کر رہا تھا لہٰذا میں نے ڈھائی کلو وزنی مچھلی کھا کر اس کو پورا کیا تاکہ اگلے میچ میں اس سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکوں۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں