5 190

ہم کہاں کھڑے ہیں؟

دو روز قبل اخبارات میں غیرملکی میڈیا کی طرف سے جاری کی گئی خبر پڑھی تو حیرت میں ڈوب گیا کہ ہمارے معاشی حالات اس قدر ابتر کیوں ہو گئے ہیں، خبر یہ تھی کہ امریکا میں بھارتی نژاد امریکی شہری امیرترین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شہری ہیں جبکہ ایک سروے کے مطابق امریکا میں بھارتی نژاد شہریوں کا شمار معروف کاروباری شخصیات میں ہوتا ہے، مائیکرو سافٹ اور گوگل کے چیف ایگزیکٹو آفسر بھی بھارتی نژاد ہیں، غیرملکی میڈیا نے امریکا کے بڑے کاروباری شخصیا ت کی فہرست جاری کی ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق بھارت سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت نے ایک ساتھ برطانیہ سے آزادی حاصل کی، جس طرح بھارت وسائل کے اعتبار سے بڑا ملک ہے اسی طرح اس کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، ہمیں یہ تسلیم کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے کہ بھارت نے معاشی میدان میں پاکستان سے سبقت حاصل کی ہے جبکہ پاکستان کی معیشت ہمیشہ مد وجزر کا شکار رہی ہے۔ 1950تک پاکستانی معیشت ایک مستحکم درجہ اختیار کرچکی تھی۔ کوریا کی جنگ میں پاکستانی کپاس، پٹ سن سے خوب زرمبادلہ حاصل ہوا لیکن ملکی معیشت میں تبدیلی 1958 کے بعد آئی۔ پاکستان کا دوسرا پانچ سالہ منصوبہ 1965میں ختم ہوا۔ اس وقت پاکستانی معیشت کو ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک ماڈل کی حیثیت حاصل تھی۔ ورلڈبینک کے مطابق اس وقت جو ممالک پہلی دنیا (ترقی یافتہ ممالک) کا درجہ حاصل کرسکتے تھے، ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد معیشت میں خرابی پیدا ہوئی لیکن جلد ہی اس پر قابو پالیا گیا اور 1968تک ترقی کی شرح دوبارہ 7فیصد سے زیادہ ہوگئی۔ اس کے بعد حالات خراب ہونا شروع ہوئے۔1972میں جب نئی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس نے ملک میں بہت سی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا رد عمل منفی ہوا۔ بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا۔ اس طرح پاکستان میں موجود کئی ایک بڑے صنعتکاروں کو ملک چھوڑنا پڑا۔ اس عمل سے ملک میں صنعتوں کی ترقی کی شرح بہت کم ہوگئی اور اس کا اثر عمومی قومی پیدا وار پر بھی پڑا۔ روپیہ کی قدر کم کرنے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا۔1980 کے عشرے میں ملک میں سیاسی استحکام رہا، اس لئے دوبارہ ترقی کی شرح بڑھنے لگی لیکن افغان بحران کی وجہ سے ملک میں اندرونی بحران پیدا ہوتا رہا۔1988 کے بعد سے آنے والی حکومتوں نے پائیدار ترقی کے بجائے وقتی اقدامات سے عوام کو خوش رکھنے کی کوشش کی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد پھر کبھی بھی پاکستانی معیشت مستحکم نہ ہوسکی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت کو مسلسل کم کیا جاتا رہا۔ اگر ہم ماضی قریب کا جائزہ لیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ آج پاکستان معاشی بحران کا شکار ہوچکا ہے۔ روپیہ اپنی قدر کھوئے جارہا ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے، معیشت سست روی کا شکار ہے اور ٹیکس آمدنی میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔امریکہ ویورپی ممالک میں بھارت کے شہریوں کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کی طرح عرب ممالک میں بھی بھارتی شہری اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جبکہ پاکستانی کم تر عہدوں پر یا محنت مزدوری کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔ یو اے ای سے شائع ہونے والے مؤقر اخبار”البیان” نے بتایا ہے کہ دبئی میں لینڈ اینڈ پراپرٹی ڈویلپمنٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق یکم جنوری سے اختتامِ ستمبر تک غیر ملکیوں اور مقامی شہریوں کی جانب سے کمرشل اور نان کمرشل بنیادوں پر مجموعی طور پر 21کروڑ درہم مالیت کا لین دین کیا گیا۔ اس دوران مقامی شہریوں نے کل ڈیڑھ کروڑ مالیت کے 947مکانات خریدے جبکہ ان کے مقابلے میں غیر ملکیوں نے ساڑھے چودہ ہزار مکانات خریدے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق لینڈ ڈویلپمنٹ کی تیارکردہ فہرست میں بتایا گیا ہے کہ ترتیب میں متحدہ عرب امارات کے شہری مکانات کی خریداری میں چوتھے نمبر پر رہے ہیں۔ اس سال بھارتی تارکین وطن نے دبئی میں سب سے زیادہ جائیدادیں خرید کر یورپین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ فہرست میں دوسرے نمبر پر ایرانی، تیسرے پر برطانوی اور چوتھے پر پاکستان کے شہری رہے۔معاشی ماہریں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں میں بھارت کو بھی شمار کر رہے ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق برازیل، روس، بھارت اور چین عالمی طاقتوں کے طور پر اُبھریں گے جبکہ عالمی دولت کا بڑا حصہ مغرب سے مشرق کو منتقل ہو جائے گا۔ چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہوگا جبکہ بڑی فوجی طاقت کے طور پر بھی سامنے آئے گا۔ ماہرین کے مطابق آنے والی تین دہائیوں میں بھارت بہت تیز رفتار سے ترقی کرنے والا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انڈیا کی شرح نمو اوسطاً پانچ فیصد رہے گی اور یوں یہ دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل رہے گا۔ ہمارے ارباب حل وعقد کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ بھارت کیساتھ آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہم اس سے کیوں پیچھے ہیں اور وہ کیا اسباب ہیں جنہیں اختیار کر کے بھارت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

مزید پڑھیں:  وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں