arif bahar 18

شکریہ! جناب اردگان

ترک صدر رجب طیب اردگان ایک بار پھر کشمیری اور فلسطینی عوام کے سب سے قدآوروکیل اور ان کے حق کے موثر موید بن کر سامنے آئے ہیں ۔انہوںنے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لئے اپنے ریکارڈڈ خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حل پر زوردیتے ہوئے کہا کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا کے امن واستحکام کے لئے بہت اہم ہے۔یہ اب بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد صورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم مذاکرات ،اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔طیب اردگان کے اس جرات مندانہ پیرایہ اظہار پر جہاں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا وہیں حسب توقع بھارت کی چیخیں دور دور تک سنائی دیں۔اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب ٹی ایس پریمورتی نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام جموں وکشمیر کے بارے میں ہم نے ترک صدرکا بیان پڑھا یہ انڈیا کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے اوریہ انڈیا کیلئے مکمل طور پر ناقابل قبول ہے ترکی کو کسی دوسرے ملک کی خودمختاری کا احترام سیکھنا چاہئے ۔ترک صدر نے گزشتہ برس بھی پوری جرأت کیساتھ جنرل اسمبلی سے خطاب میں مسئلہ کشمیر اُٹھایا تھا بلکہ ترکی پاکستان اور ملائیشیا تین ہی ممالک تھے جنہوںنے بہت کھل کر مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت کے خاتمے کی مخالفت کی تھی ۔یہاں تک کہ طیب اردگان کے اس خطاب کے بعد بھارت نے ترکی کیساتھ جہازوں کاسودا منسوخ کیا تھا بلکہ مودی نے اپنا ترکی کا دورہ بھی منسوخ کر دیا تھا ۔ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بھی ترکی پاکستان کی مسلسل حمایت کرتا چلتا آرہا ہے ۔کشمیر اور ایف اے ٹی ایف پر ترکی کا کردار بھارت کیلئے سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں ۔ترک صدر نے رواں سال کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر ترکی کیلئے بھی اتنا ہی اہم ہے جنتا کہ پاکستان کیلئے ہے۔ انہوںنے پاکستان کو کسی مرحلے پر عالمی تنہائی کا شکار نہیں ہونے دیا ۔طیب اردگان اس وقت عالم اسلام کے سب سے نمایاں اور حقیقی قائد بن کر اُبھرے ہیں ۔انہوںنے کشمیر اور فلسطین سمیت دنیا کے تمام مظلوم مسلمانوں کے حق میں نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی طور پر بھی ان کی مدد کی کوشش کی ۔شامی پناہ گزینوں کیلئے اپنے دروازے کھولنا اور شہریت دینا ،حماس کے نمائندوں اور لٹے پٹے فلسطینیوں کیلئے دیدہ ودل فرش راہ کرنا مظلوم کشمیریوں کی حمایت کے بدلے اپنا معاشی نقصان برداشت کرنا طیب اردگان کے مسلمانوں کے قائد ہونے کا ثبوت ہے۔فلسطین کے دو آزادی پسند گروپوں حماس اور الفتح نے طیب اردووان سے اپنے داخلی اختلافات ختم کرانے کیلئے کردار کی اپیل کی ۔طیب اردووان نے ان دو نوں تنظیموں کے درمیان کامیاب مصالحت کرائی اور اب غزہ اور رملہ میں منقسم یہ دونوں تنظیمیں اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں میں انتخابات کے فارمولے پر متفق ہوگئیں۔یوں فلسطینی عوام کی اجتماعی طاقت بکھرنے کی بجائے دوبارہ یکجا ہونے کے آثار پید اہوگئے ہیں۔ مسلمان دنیا اس وقت دو بلاکس میں تقسیم دکھائی دے رہی اور اس تقسیم کی بنیاد اسرائیل ہے۔مسلمانوں میں ایک گروپ”فرینڈ زآف اسرائیل ”کی صورت اُبھر رہا ہے اس میں بیشتر عرب ممالک شامل ہیں ۔کچھ اسرائیل کو برسوں پہلے تسلیم کر چکے ہیں کچھ تسلیم کررہے ہیں اور کچھ اس جانب دانستہ طور پر رینگ رہے ہیں۔یہ فلسطینیوں کوخدا حافظ کہنے کا تکلف بھی نہیں کرتے ۔جونہی کوئی عرب ملک اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھاتا ہے فلسطین غم واندوہ میں ڈوب جاتا ہے ۔ان کے گھر ماتم کدے بن جاتے ہیں اور وہ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔یہ سرمائے اور تجارت کے آگے سجدہ ریز گروہ ہے مگر اپنے فیصلوں کے سٹریٹجک نقصانات سے بے خبر ہے ۔انہیں یہ احساس ہی نہیں فلسطینی عوام حقیقت میں اسرائیل کے سامنے کھڑے ہو کر ہیومن شیلڈ کا کردار ادا کرتے رہے ۔یہ حصار گر گیا تو اسرائیل عربوں سے دست درازی کرے گا ۔اس کے باجودمسلمانوں کا ایک گروپ سودوزیاں کی پرواہ کئے بغیر فلسطینی عوام کیساتھ کھڑا ہے جس میں ترکی ،پاکستان ،ایران ،قطر اور کچھ دوسرے ملک شامل ہیں ۔یہی تقسیم فلسطین سے ہوتی ہوئی کشمیر تک جا پہنچتی ہے ۔فرینڈز آف اسرائیل کشمیر میں” فرینڈز آف انڈیا” بن کر سامنے آرہے ہیں ۔انہیں بھارت کی چیرہ دستیوں سے نہیں اس کیساتھ تجارت سے دلچسپی ہے ۔اس سے بھی بڑھ کر یہ ان کیلئے امریکہ کا حکم ہے جس سے وہ سرتابی نہیں کرسکتے۔مسلمان ملکوں کا جو گروہ اسرائیل کا حامی ہے وہ بھارت کا ہمدرد بھی ہے اور جو گروپ فلسطینیوں کا حامی ہے وہی ایک اصول کی بنیاد پر کشمیریوں کا حامی بھی ہے ۔اس طرح کشمیر اور فلسطین کا مقدر ہمیشہ کی طرح یہاں بھی ایک جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب