p613 131

آئی ایم ایف کی نئی کڑی شرائط

حکومت نے رواں سال مختلف شعبوں کیلئے 209ارب روپے کی سبسڈی مختص کی ہے’ توانائی کے شعبے کیلئے 150ارب روپے ، یوٹیلٹی اسٹورز کیلئے 3ارب روپے ، سستی گندم کیلئے 13ارب روپے جب کہ میٹرو بس کیلئے 2ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے، نیا پاکستان ہائوسنگ پراجیکٹ کیلئے بھی 30ارب روپے سبسڈی کی مد میں مختص کیے گئے ہیں۔ اب آئی ایم ایف نے قرض پروگرام جاری رکھنے کیلئے پاکستان پر ایک اور کڑی شرط عائد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی اور گیس سمیت یوٹیلٹی اسٹورز کی سبسڈی ختم کی جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت نے اپنے مالی خسارے پر کنٹرول پانے کیلئے اپریل 2019ء میںآئی ایم ایف سے رجوع کیا تھا، آئی ایم ایف نے جولائی 2019ء میں کڑی شرائط پر پاکستان کیلئے 6ارب ڈالر قرض پروگرام کی منظوری دی، جن میں سے ابھی تک پاکستان کوایک ارب 44کروڑ ڈالر ہی مل سکے ہیں ، آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کیلئے منظور شدہ رقم میں ساڑھے چار ارب ڈالر سے زائد ملنا ابھی باقی ہیں لیکن آئی ایم ایف نے پروگرام کو جاری رکھنے کیلئے مزید سخت شرائط کا عندیہ دے دیا ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات پر غورکیلئے اگرچہ وزارت خزانہ میں خصوصی سیل قائم کر دیا ہے ، جو سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کی سربراہی میں غیر ضروری سبسڈیز کے خاتمے کیلئے اپنی سفارشات مرتب کرنے سمیت معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کیلئے تجاویز بھی دے گا، حکومتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ سبسڈیز کے خاتمے کی آئی ایم ایف کی شرط کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ وہ پہلے سے ہی غیر ضروری سبسڈیز کے خاتمے پرکام کر رہی ہے اور صرف مستحق لوگوںکو ریلیف دینے کیلئے مخصوص سبسڈیز دینے پریقین رکھتی ہے تاہم معلوم ہونا چاہئے کہ پاکستان کے عوام پہلے ہی مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی طرف سے جن بجلی صارفین کومعمولی سبسڈی دی گئی ہے ان میں سے اکثر لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ‘ کیونکہ 300ماہانہ یونٹس استعمال کرنے والی وہ فیملیاںہیں جو تین سے چار افراد پر مشتمل ہوتی ہیں اور گرمیوں میں ایئر کنڈیشن کے بغیرزندگی گزار رہی ہیں، ایسے صارفین کو اگر حکومت کی طرف سے اس سے پہلے معمولی سبسڈی دی جا رہی تھی اب آئی ایم ایف کے مطالبے پر ان کو دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کا سوچا جارہا ہے تو یہ فیصلہ لوئر مڈل کلاس پر اضافی بوجھ کے مترادف ہو گا، اس لیے ضروری ہے کہ 300ماہانہ یونٹس کے استعمال پر دی جانے والی سبسڈی کو باقی رکھا جائے ، گیس چونکہ ملکی پیداوار ہے ، بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہے، اور حکومت کی طرف سے رواں 209ارب روپے کی سبسڈی کیلئے جن شعبوں کو مختص کیا گیا ہے ان میں سے گیس کیلئے کوئی سبسڈی نہیں مختص کی گئی ہے، ایک ایسا شعبہ جس پر حکومت کی طرف سے پہلے کوئی سبسڈی نہیں دی جا رہی تو اس کی سبسڈی ختم کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے گیس کے نرخ بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے جسے سبسڈی کے خاتمے کا نام دیا جا رہا ہے ، اگر حکومت نے آئی ایم ایف کے اس فیصلے کو من و عن تسلیم کر لیا تو گھریلو صارفین کیلئے بے پناہ مشکلات پیدا ہو جائیں گی کیونکہ گیس کے نرخ میں اضافے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا جا رہا ہے کہ جب موسم سرما کی آمد آمد ہے اور سردیوں میں گیس کے استعمال میں اضافہ ہو جاتا ہے، جبکہ حکومت کی طرف امسال گیس بحران کی پیشگی اطلاع بھی دی گئی ہے، اس پس منظر کے بعد ضروری ہے کہ گیس نرخ میں اضافہ کرنے سے گریز کیاجائے، جہاں تک معاملہ ہے یوٹیلٹی اسٹورز پر سبسڈی کے خاتمے کا تو معلوم ہونا چاہیے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر محض کھانے پینے کی چند اشیاء پر سبسڈی دی جا رہی ہے جس سے بالعموم غریب طبقہ مستفید ہو رہا تھا ، اگر یوٹیلٹی اسٹورز پرسبسڈی کے خاتمے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا گیا تو عوام کی بڑی تعداد کھانے پینے کی اشیاء کی سستی فراہمی سے محروم ہو جائے گی،ان مشکل حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ ریاست جس حد تک غریب طبقہ اور لوئر مڈل کلاس کی معاون و مددگار بن سکتی ہے اسے بننا چاہیے اور یہ سلسلہ تب تک جاری رکھنا چاہیے جب تک ملک کے معاشی حالات سازگار نہیںہو جاتے۔

مزید پڑھیں:  امریکی پابندی کا استرداد