p613 131

بھارت دہشت گردوں کا سہولت کار

بھارت پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی بلیک لسٹ میں دیکھنا چاہتا تھا ، اس مقصدکیلئے بھارت نے عالمی سطح پر پاکستان کیخلاف خوب پروپیگنڈہ کیا، بھارت کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ پاکستان دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، لیکن پاکستان کی بہترین سفارتکاری اور دوست ممالک کے تعاون کی بدولت عالمی قوتوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان پر عائد کیے جانے والے الزام میں کوئی صداقت نہیں ہے بلکہ دہشتگردی کیخلاف پاکستان کی کوششوںکو عالمی سطح پر سراہا گیا، لیکن اب جا کرعقدہ کھلا ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت منی لانڈرنگ اور دہشتگردوں کا مرکز بن چکا ہے، 2011ء سے 2017ء تک بھارت میں بڑے پیمانے پرمنی لانڈرنگ کی گئی جس کی شایددنیا میں کوئی دوسری مثال ملتی ہو، امریکی وزارت خزانہ کی خفیہ فائلوں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت کے 44بینکوں نے 1.53 ارب ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی، بھارت کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آنے کے بعد چند سوالوں نے جنم لیا ہے، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور عالمی قوتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کار اور پشت پناہی کرنے والے بھارت سے ان سوالوںکا جواب طلب کرے تاکہ دنیا کومعلوم ہو سکے بھارت کی الزام تراشی پر پاکستان کو کٹہرے میں کھڑے کرنے والے ادارے (ایف اے ٹی ایف) کے پیمانے پاکستان اور بھارت کیلئے الگ الگ نہیں ہیں، بھارت کے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے بعد ضروری ہے کہ منی لانڈرنگ میں ملوث تمام چہروں سے نقاب اُتارا جائے تاکہ دنیا جان سکے کہ بھارت کااصل چہرہ کیا ہے۔
مفاہمتی سیاست وقت کا تقاضا
اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد ملک میں جو سیاسی ماحول پیدا ہو چکا ہے ، یہ ملک و قوم کو پستی میں لے جانے کا باعث بن رہا ہے’ کیونکہ منتخب حکومت ملک وقوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے نان ایشوز میںالجھ کر رہ گئی ہے، عجیب بات تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی آئینی مدت میں سے دو سال سے زائد کا عرصہ گزار چکی ہے ، اگر حکومت نے بچ جانیوالے دو سالوں میں بھی کام نہ کیا تو خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے پانچ سال یونہی گزر جائیں ، اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہر دو سطح پر بالغ نظری کا مظاہرہ کیا جائے، حکومت کیلئے لچک کا مظاہرہ کرنا اس لیے بھی لازمی ہے کہ اس نے باقی ماندہ مدت میں ڈیلیور کرنا ہے، اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر اگر مفاہمت کی سیاست کی پیشکش کرتے ہیں تو حکومتی سطح پر اس کی تحسین کی جانی چاہیے تاکہ وہ اپنے آخری دو سالوں میں عوامی مسائل اور ترقیاتی منصوبوں کی طرف توجہ دے سکے۔ حکومت کے پیش نظر یہ امر ہونا چاہیے کہ آج ان کے پاس مہلت عمل ہے ، کام کرنے کیلئے دو سال کی مدت کم نہیں ہے، وہ دن رات کا فرق کیے بغیر کام کرے تو مہنگائی میںکمی، معیشت کی بحالی اور بے روزگاری کی شرح کم کر سکتی ہے لیکن اگر حکومت نے اپنی مدت کے آخری دو سال بھی اپوزیشن جماعتوں سے مزاحمت میںنکال دیے تو یاد رکھنا چاہیے کہ پانچ سال پورے ہونے کے بعد عوام کارکردگی کا جائزہ لیں گے اور اگلے الیکشن کسی سہانے نعرے پر نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہوں گے۔ اگر حکومتی کارکردگی یہی رہی جو دکھائی دے رہی ہے تو پھر ارباب اختیار کو کسی خوش فہمی اور زعم میں رہنے کی بجائے نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔
غیرت کے نام پر قتل ، سدباب کی ضرورت
خیبرپختونخوا کے ایک اور نوبیاہتا جوڑے کوغیرت کے نام پر قتل کر کے موت کی نیند سلا دیا گیا ہے، قتل کرنے والا لڑکے کا باپ اور لڑکی کا سسر تھا۔ نوبیاہتا جوڑے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی ، جس پر سسر کو طیش آ گیا اور اس نے اس معاملے کو غیرت کا مسئلہ قرار دے کر دونوں کو قتل کردیا، اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں جس کی تاحال تفصیلات سامنے نہیں آ سکی ہیں، تاہم جرم کی نوعیت جو بھی ہو کسی شہری کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لیکر خود ہی منصف بن کرفیصلے صادر کرنا شروع کر دے ۔ اس ضمن میں بنیادی طور پر دو سوال جنم لیتے ہیں ، ایک یہ کہ غیرت کے نام پر قتل کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ جبکہ دوسرا سوال یہ ہے کہ ریاست ایک قاتل کیساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان عوامل کو تلاش کیا جائے جو غیرت کے نام پر قتل کا باعث بن رہے ہیں، اہل دانش اور سماجیات کے ماہرین کی خدمات لیکر اس کیخلاف مہم چلائی جائے اور عوام کوبتایا جائے کہ بہو بیٹی اگر کسی غلطی کا ارتکاب کرلیں تو ان کیساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے تو ریاست کو قاتل کیساتھ اس روئیے کیساتھ پیش آنا چاہیے جس کا وہ حقدار ہے، ایسے لوگوں کیخلاف بھرپور قانونی کارروائی عمل میں لانی چاہیے اور اگر ایسے لوگ قانون میں سقم کی وجہ سے بچ نکلتے ہیں تو قانون سازی کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ غیرت کے نام پر قتل کا سدباب کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!