4 187

دیکھنا تقریر کی لذت

واقعی اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک اہم نعمت قوت گویائی یعنی تقریر کی صلاحیت ہے، تقریر کیلئے اہل زبان ولغت اور وضاحت وبلاغت اور ضائع وبدائع کے ماہرین نے جن کوائف کو ضروری قرار دیا ہے اُن میں سے زبان پر عبور، مطالعہ اور خلوص (کہ بات دل سے نکلے) اور دل میں بیٹھے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ وزیراعظم پاکستان کو ان میں کون سی نعمت بدرجہ اتم حاصل ہے یہ ایک الگ اور اس وقت غیرمتعلقہ سی بات ہے لیکن شاید مخالفین بھی اس بات کا انکار نہیں کر سکیں گے کہ پاکستان کے حکمرانوں میں بابائے قوم محمد علی جناح، ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بعد اگر انگریزی زبان پر کسی کو عبور وملکہ حاصل ہے تو وہ موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان ہیں۔ آپ عالمی اداروں سے جس انداز میں مخاطب ہو کر پاکستان، عالم اسلام اور دنیا کے اہم مسائل پر بات کرتے ہیں تو آدمی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اُس نے کہا میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل سے پچھلے سال آپ کے خطاب کی گونج ابھی یو این کے در ویوار اور عالمی اداروں میں صدائے بازگشت کی طرح سنائی دے رہی تھی کہ ایک دفعہ پھر 25ستمبر کو آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ موقع دوبارہ فراہم کیا اس دفعہ بھی آپ نے پچھلے برس سے بھی بڑھ کر پچاس پچپن منٹ کی تقریر میں پاکستان اور دنیا کے اہم مسائل پر بہت نپی تلی گفتگو کی، آپ کی اس تقریر کے دس گیارہ اہم نکات پر مندرجہ ذیل سطور میں قارئین ”مشرق” کو غور وفکر میں شریک کرنے کی ایک کوشش پیش خدمت ہے۔ وزیراعظم نے سب سے پہلے پاکستان کو انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے ایک دفعہ پھر مدنی ریاست کا حوالہ دیا کہ ہماری کوشش ہے کہ پاکستان کو مدینہ کی ریاست کے مصداق بنایا جائے۔ وزیراعظم کی یہ خواہش بہت مستحسن اور قابل تعریف ہے لیکن سچی بات یہی ہے کہ ”ہنوز دہلی دور است” جس ملک کا قیام اسلام ہی کی مرہون منت ہو اور وہاں پھر بھی چھہتر برس میں شریعت کے نفاذ کی کوئی سنجیدہ کوشش سامنے نہ آئی ہو وہاں مدینہ کی ریاست کی بات کرنا دل کو خوش رکھنے کو غالب کا یہ خیال بس خیال ہی رہیگا جس ملک میں سعودی نظام معیشت جاری وساری ہو وہاں ایسی باتیں کرنا بس باتوں ہی کے ذیل میں شمار ہوں گی۔
دوسرا اہم نکتہ کمال کا نکتہ اور حقیقت میں ایک نادر نکتہ سامنے آیا کہ ”جب تک دنیا کا ایک شخص غیرمحفوظ ہے دنیا کا ہر شخص غیر محفوظ ہے”۔ کووڈ۔19 کے ذیل میں یہ بہت ہی خاص نکتہ ہے اس وبا نے انسانیت کو یہ سبق دیا ہے کہ سب انسان برابر ہیں لہٰذا انسانیت کی حفاظت کیلئے سب کو ایک ہونا پڑے گا ورنہ تباہی وبربادی ہی مقدر ہوگی۔
تیسرا اہم نکتہ غریب ملکوں کی غربت اور معاشی حالات کی ابتری کے بارے میں تھا اور کمال ہنرمندی سے وزیراعظم نے مغرب کے امیر ملک جہاں غریب ملکوں کے حکمرانوں کی لوٹ مار کو بنکوں میں تحفظ دیا جاتا ہے کو دنیا کے سامنے آشکار کیا اور اُن ملکوں کے صاحبان علم ودانش وضمیر کو مخاطب کیا کہ اپنے حکمرانوں کو اس فعل بد سے روکنے کے انتظامات کئے جائیں۔چوتھا نکتہ ماحولیات کے حوالے سے تھا کہ اس وقت انسان کو انسان کی لالچ وحرس کے ہاتھوں صاف پانی، ہوا اور خوراک میسر نہیں۔ ایٹمی اور کیمیائی تجربات نے انسانیت کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہے لہٰذا امیر اور بڑے ممالک کو ماحولیات کے تحظ کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان میں اس حوالے سے اربوں پودے اور درخت لگا نے کی مہم کی صورت میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا جا رہا ہے، پانچواں نکتہ عرب ممالک کو امیر ممالک کی طرف سے کوڈ۔19 کے سبب سودی قرضوں میں ریلیف کا تھا اور مطالبہ کیا کہ اس ریلیف کو مزید بڑھایا جائے تاکہ غریب ممالک کے عوام کو اس کے ذریعے ریلیف دیا جائے، چھٹا نکتہ میرے نزدیک سب سے اہم اور نازک مسائل کے حوالے سے تھا اور وہ تھا کہ اسلاموفوبیا وزیراعظم نے بہت کامیابی کیساتھ بھارت میں مسلمانوں اور مسیحیوں کیخلاف بات کرتے ہوئے یورپ تک پھیلادی کہ کس طرح وہاں جناب رسول اکرمۖ خاتم النبیین کے خاکے (نعوذبااللہ) قرآن سوزی اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی مسماری توہین کا ارتکاب ہوتا ہے جو دنیا کے امن کیلئے انتہائی خظرناک ہے لہٰذا یو این قانون سازی کر کے اس کا سدباب کرے۔جناب وزیراعظم نے اپنی تقریر کے آخر میں جس طرح بھارت کی اسلاموفوبیا اور کشمیر کے حوالے سے خبر لی دنیا میں اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی، نریندر مودی کو ہٹلرثانی سے تشبیہ دے کر جس طرح بھارتی اور کشمیری مسلمانوں اور مسیحیوں پر روا رکھے مظالم کو اُجاگر کیا اس سے دنیا کے سامنے بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے آیا۔ ہندوتوا اور نازی ازم ایک ہی سکے کے دورخ ہیں دنیا کو اس سے خبردار رہنا ہوگا ورنہ پھر اس کے عواقب اور نتائج کیلئے تیار رہنا ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟