5 192

قارئین کے خطوط، شکوے اور تجاویز

تخت بھائی سے عالمگیر خان لکھتے ہیں ”اخبارات اور ٹی وی چینلز کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کے مسائل اُجا گر کریں، حکمرانوں کو بتائیں کہ دو وقت کی روٹی کا سامان کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے، مہنگائی عام آدمی کی برداشت سے باہر ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ حکومت نے ادویات کی قیمتیں بڑھائیں لیکن یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ مہنگائی سے ستائے ہوئے شہری یہ بوجھ کیسے اُٹھا پائیں گے۔ عالمگیر خان کہتے ہیں حکومت کا فرض ہے مہنگائی کم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرے۔ ان کے شکوے بجا ہیں، مہنگائی کے سیلاب بلا سے متاثرہ شہریوں کی فریاد سننے والا کوئی نہیں، اشیائے خورد ونوش کے نرخ روزانہ کی بنیاد پر بڑھتے چلے جارہے ہیں، رہی سہی کسر ادویات کی قیمتوں میں اضافے نے پوری کر دی۔ اس پر مزید ستم یہ ہوا کہ وفاقی مشیرصحت کہتے ہیں ہم نے ادویات کی قیمتیں اسلئے بڑھائیں کہ یہ عوام کی دسترس میں رہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ حکومت نے منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کیا کارروائی کی؟ نہیں کی تو اس کی وجہ کیا ہے یہی تاکہ سرمایہ دارطبقات ہر دور میں اپنے تعلقات او ردیگر ذرائع استعمال کر کے آسانیاں حاصل کرلیتے ہیں مگر کیا کوئی بھی حکومت صرف سرمایہ دار طبقات کے ذریعے اقتدار میں آتی ہے یا رائے دہند گان کی حمایت وتعاون سے؟ ہماری دانست میں مہنگائی اور بیروزگاری جیسے مسائل فوری توجہ کے طالب ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کسی تاخیر کے بغیر اصلاح احوال کیلئے مناسب اقدامات کرنے چاہئیں۔
پشاور سے محمد عباس لکھتے ہیں کہ ”بی آرٹی منصوبہ کے آغاز سے اب تک اس کے مرکزی روٹ پر جو صورتحال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، اس روٹ سے ملحقہ علاقوں میں ڈسٹ الرجی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ آنکھ، ناک اور گلے کی بیماریوں کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے ایک سروے کر وا کے دیکھ لے محکمہ صحت۔اس کیساتھ ساتھ بی آرٹی روٹ سے ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کے نہ ختم ہونے والے مسائل ہیں چند منٹ کا سفر گھنٹوں میں طے ہو تا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ منصوبہ بنانے والوں نے ان بنیادی مسائل کو یکسر نظرانداز کیا اور اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اس روٹ کی ملحقہ آبادیوں اور کمرشل ایریا ز کے لوگوں کو ایک نامعلوم عرصہ تک مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ پشاور کے اور خصوصاً بی آرٹی روٹ سے ملحقہ علاقوں کے مسائل کے حوالے سے جناب محمد عباس خان کا خط اہمیت کا حامل ہے، وزیراعلیٰ محمود خان، وزیرصحت اور دیگر حکام کو نہ صرف ان مسائل کے حل کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ بی آرٹی سے ملحقہ علاقوں میں ٹریفک کے سست رفتار بہائو سے شہریوں کیلئے روزانہ کی بنیاد پر جو مسائل کھڑے ہوتے ہیں وہ کس طرح کم ہوں۔پشاور ہی سے محترمہ نجمہ اورنگزیب لکھتی ہیں کہ ”دنیا بھر میں کورونا وباء کے دوسرے دور کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ پہلے دور میں پاکستان پڑوسی ملک بھارت یا بعض مغربی ممالک کی طرح متاثر نہیں ہوا، اس کے باوجود مارچ سے اگست تک معمولات زندگی درہم برہم ہی رہے۔ اب جبکہ معمولات زندگی کی رونقیں بحال ہورہی ہیں توحکومت اور شہریوں دونوں کا فرض ہے کہ ماہرین صحت کی ہدایات پر عمل کریں۔ انہوں نے اپنے مکتوب میں افسوس کا اظہار کیا کہ حفظان صحت کے اصولوں اور کورونا ایس او پیز پر عمل نہیں ہورہا۔
مردان سے لالہ مراد خان یوسفزئی لکھتے ہیں ”آٹا، چینی اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں، حکومت اور میڈیا تک چھوٹے بڑے شہروں کے مسائل تو پہنچ جاتے ہیں مگر دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں شہری مہنگائی کے ہاتھوں جس عذاب سے دوچار ہیں اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ انہوں نے تجویز پیش کی ہے کہ حکومت اور ہر ضلع کی انتظامیہ یونین کونسلوں کی سطح پر کمیٹیاں قائم کریں اور یہ کمیٹیاں روازانہ کی بنیاد پر اپنی یونین کونسل کی حدود میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں کو چیک کریں اور اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ دکاندارمرضی کے نرخ پر اشیاء فروخت کرنے کی بجائے مقررہ قیمتوں پر فروخت کریں؟ یوسفزئی صاحب کی باتیں، شکوے اور تجاویز بجا طور پر درست ہیں۔ حقیقت یہی ہے مہنگائی سے گوسارا ملک متاثر ہے لیکن دور دراز کے علاقے اور خود شہروں کے قریب کے دیہی علاقوں میں تو کبھی کوئی ایسا نظام تھا نا ہے جس سے دیہی علاقوں کے لوگوں کو مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے اقدامات ہوسکیں۔ دیہاتی علاقوں کے دکانداروں کا پہلا اور آخری مؤقف یہ ہوتا ہے کہ ایک تو یہ اشیاء ہم خود مہنگے داموں خرید کر لائے ہیں،پھرآمد ورفت کے اخراجات بھی ہیں، اب اگر ہم اپنا منافع رکھ کر اشیائے صرف اور دیگر اشیاء فروخت نہ کریں تو ہمارے خاندانوں کی زندگی کی گاڑیاں کیسے چلیں گی۔ کسی حد تک یہ بات درست ہے، ان کا حل یہ ہے کہ حکومت منڈیوں اور بڑے بازاروں میں قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے مؤثر اقدامات کرے اور ثانیاً دیہی علاقوں کے دکاندار بھی اپنے خالص منافع میں کچھ کمی کریں تاکہ مل جل کر حالات کو بہتر بنانے میں کامیابی حاصل ہو۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!