1 248

مودی کے بت پر بلقیس بانو کی کنکریاں

وزیراعظم عمران خان نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں جس طرح نریندر مودی اور ان کے بھارت کی ذہنیت، متعصبانہ سوچ اور حکمت عملی کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دئیے تھے اس سے عمومی توقع یہی تھی کہ وہ جواب میں پاکستان اور چین کا تذکرہ ضرور کریں گے۔ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کی گردان کریں گے اور دہشتگردی کا منترا پڑھ کر دنیا کو رام کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان کیساتھ تو بھارت حالت جنگ میں کھڑا ہے اور چین کیساتھ بھی اس کے تعلقات میں کشیدگی کا عنصر نمایاں ہے۔ دونوں طرف سے مذاکرات جاری ہیں مگر تاحال ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہ نہیں ہوا۔ اس پس منظر میں بھارتی عوام اور میڈیا بھی نریندر مودی سے ایک غیرمعمولی خطاب کی توقع لگائے ہوئے تھے۔ ٹی وی سٹوڈیوز میں اس تقریر پر تجزیوں کیلئے ماہرین کو لابٹھایا گیا تھا۔ اُدھر مودی پاکستان اور چین کیخلاف آگ اُگلیں گے اِدھر سیاسی تجزیہ نگار اس پر مودی کی ٹارزن جیسی شبیہ بنا کر پیش کریں گے۔ مودی کی تقریر نے ان سب کی اُمیدوں پر اوس ڈال دی۔ مودی نے اقوام متحدہ کے اس عالمی ادارے سے سب سے پھُسپُھسا خطاب کیا۔ حد تو یہ کہ خود بھارت کے ذرائع ابلاغ نے بھی اپنے چھپن انچ سینہ رکھنے والے وزیراعظم کی تقریر کو چنداں اہمیت نہیں دی۔ مودی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کے ایک ارب تیس کروڑ لوگ اقوام متحدہ میں اصلاحات کے مکمل ہونے کے انتظار میں ہیں۔ آج بھارت کے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں کہ آیا یہ عمل تکمیل کو پہنچے گا بھی یا نہیں؟ آخر کب تک بھارت کو فیصلہ سازی سے الگ رکھا جائے گا، جس کے بعد مودی نے کورونا وبا اور ویکسین پر بات کی، بھارت کی جمہوریت کا تذکرہ کیا ماضی کے بھارت کی داستان چھیڑی مگر ان کی تقریر ان چیلنجز کے ذکرسے خالی رہی جس کا بھارت کو لمحۂ موجود میں سامنا ہے۔ بھارت جس طرح اپنا عالمی قد اونچا کرکے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت چاہتا ہے اس خواہش پر عمران خان کی تقریر نے اوس ڈال دی ہے۔ عمران خان نے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے دعویدار اور خواہش مند بھارت کو دنیا کا بدترین متعصب، نسل پرست، اقلیتوں کیلئے غیرمحفوظ اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کو روندنے والا ثابت کیا تھا۔ بھارت کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ عمران خان اپنے روایتی کھلے ڈلے انداز میں مودی کی سیاست اور مودی کے ہندوستان کے بخئے ادھیڑ کر رکھ دیں گے اسی لئے عمران خان کی تقریر شروع ہوتے ہی بھارتی نمائندہ اجلاس سے واک آؤٹ کر گیا اور تقریر کے جواب کا حق استعمال کرتے ہوئے بھارتی نمائندے کا یہ کہنا تھا کہ کل آپ نے ایک ایسے شخص کو سنا جس نے پارلیمنٹ میں اسامہ بن لادن کو شہید کہا۔ عمران خان کیخلاف چارج شیٹ پیش کرنے کے بعد بھارت کے پاس یہی ایک نکتہ باقی رہ گیا تھا جبکہ عمران خان نے جس تفصیل سے بھارت کی سوچ وفکر اور اس کے نئے اُبھرتے ہوئے خدوخال کو دنیا کے سامنے بیان کیا اس نے مودی اور بھارت کے سارے نقاب نوچ ڈالے ہیں۔ اقوام متحدہ کوئی کشتی کا اکھاڑا یا میدان جنگ نہیں ہوتا جہاں زور بازو آزمایا جائے۔ حریف کو چاروں شانے چت کیا جائے اور تیر وتفنگ کو آزمایا جائے۔ یہ سال میں ایک بار منعقد ہونے والا عالمی اجتماع ہوتا ہے جس میں زوربازو کی بجائے زورکلام دیکھا جاتا ہے۔ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی عالمی لیڈر نے اپنا اور اپنی قوم وملک کا مقدمہ کس انداز میں لڑا۔ کرۂ ارض کو درپیش چیلنجز پر کس بصیرت اور خیالات کا مظاہرہ کیا۔ حقیقت میں یہ عالمی راہنماؤں کا تقریری مقابلہ ہی ہوتا ہے جس میں لیڈرشپ کا ویژن تلاش کیا جاتا ہے۔ مودی عالمی فورم پر یہ مقابلہ ہار گیا ہے اس لئے مودی کے پاس اپنے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرنے کو کچھ باقی نہیں رہا۔ کشمیر میں مودی جو کھیل کھیل رہا ہے اس پر تمام دنیا کے ذرائع ابلاغ مسلسل رپورٹنگ کر رہے ہیں خود اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس پر بند کمرہ اجلاسوں میں بات کر چکی ہے۔ بھارتی مسلمانوں کیساتھ جو سلوک ہورہا ہے وہ بھی عالمی ذرائع ابلاغ کا موضوع رہ چکا ہے۔ شہریت قانون کیخلاف دہلی کے شاہین باغ میں خواتین کے دھرنے میں متحرک بیاسی سالہ خاتون بلقیس بانو المعروف ”شاہین باغ کی دادی” اور ”دبنگ دادی” کو امریکہ کے شہرۂ آفاق میگزین ”ٹائم” کی طرف سے مودی کے پہلو بہ پہلو دنیا کی سو بااثر شخصیات میں شامل کرنا مودی کی جمہوریت اور سیکولرازم کے دعوؤں کا بین الاقوامی استرداد ہے۔ میگزین نے مودی کو دنیا کی بااثر شخصیاست میں شامل تو کیا مگر ان کا لفظی خاکے اور تبصرے میں سارا مزہ خراب کر دیا۔ میگزین نے ایک جملے میں ہی ان کی سیاست کا بیڑہ غرق کیا کہ ”مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ صرف ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے وزیراعظم ہیں” یوں مودی کے مقابلے میں مزاحمت اور جرأت کی علامت کے طور پر بھارت کی ایک ضعیف العمر اور کمزور مسلمان خاتون کا انتخاب اس کے ٹارزن ہونے کی قلعی کھول دیتا ہے۔ عالمی ایوان میں ان شواہد اور حقائق کو جھٹلانے کی بجائے مودی نے خاموشی کا ہی راستہ اختیا رکرنے میں ہی عافیت جان لی۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟