3 193

گیس کی قلت اور درد دل کی صدائیں

سانچ کو آنچ نہیں اگرچہ محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کہ سچائی کو کوئی خطرہ نہیں مگر یہ جو ہم نے ضرب الامثال اور محاوروں کیساتھ کھلواڑ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے تو اب بالآخر یہ محاورہ بھی اسی ”کھیل” کی زد میں آتا دکھائی دے رہا ہے، یعنی ایک جانب تو گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ملک کے مختلف حصوں سے قدرتی گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں مگر دوسری جانب متعلقہ وزارت کے وزیر اور دیگر اہم عہدیدار عوام کو یہ کہہ کر خوف میں مبتلا کر رہے ہیں کہ اس سال سردیوں میں گیس کی شدید قلت کا سامنا رہے گا اور لوگوں کو صرف کھانا پکانے کیلئے ہی گیس مل سکے گی، یوں معلوم ہوتا ہے کہ یا تو یہ خبریں ہی غلط تھیں جن میں گیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے اور ان پر خوشی سے قوالیاں کرنے کی صورتحال کا قوم کو سامنا کرنے پر آمادہ کیا گیا تھا، اس ضمن میں نہ صرف خیبر پختونخوا پنجاب کے بعض علاقوں بلکہ بلوچستان میں بھی نئے اور بھاری ذخائر کی نشاندہی کی گئی تھی یا پھر اب یہ نیا ”خوفناک” بیانیہ غلط ہے جو عوام کو کسی بھوت پریت کی مانند ڈرانے کیلئے سامنے لایا گیا ہے جبکہ اس سانچ کو آنچ نہیں بلکہ ”ہے” کی ایک واقعاتی اور حقیقی تصویر متعدد مواقع پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے یعنی خیبر پختونخوا کے جن اضلاع میں گیس کے ذخائر موجود ہیں ان کے علاوہ دیگر علاقوں میں زمین سے ازخود گیس نکلنے اور انہیں آگ (آنچ) لگی ہوئی صاف نظر آتی ہے مگر ان علاقوں کی جانب کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں دکھائی دیتا۔ اب ایسی صورت میں گیس کی قلت کا رونا اچانک کیوں رویا جارہا ہے اور عوام کو خوف میں مبتلا کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے ناتے چند ماہ پہلے سمندر سے پیٹرول کے بہت بڑے ذخائر ملنے کی ان خوشخبریوں سے ملتے دکھائی دے رہے ہیں جن کے بارے میں اور کسی نے نہیں خود وزیراعظم نے بلندبانگ دعوے کئے تھے اور ملک بھر میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ ان دعوؤں کے غبارے سے ہوا نکل گئی (یا نکلوا دی گئی) کہ ساری اُمیدیں دم توڑ گئیں اور اب اسی بارے میں مکمل خاموشی اور مایوسی ہے۔ تو پہلے گیس کے نئے اور بڑے ذخائر دریافت ہونے کی خبریں مگر اب سردیوں میں گیس کا شدید (ممکنہ) بحران کہیں نیتوں کا فتور تو نہیں ہے؟ یارطرحدار شجاعت علی راہی نے ویسے ہی تو نہیں کہا تھا
آپ جب دل کی دوا دیتے ہیں
درد دل اور بڑھا دیتے ہیں
سکول کے دور کی وہ کہانی یاد آرہی ہے جو درسی کتب کا ایک مدت تک حصہ ہوا کرتی تھی، جب ایک بادشاہ شکار کے دوران ایک ہرن کا پیچھا کرتے کرتے اپنے مصاحبین اور سپاہیوں سے بچھڑ جاتا ہے اور بہت دور جانکلتا ہے، اسے دور ایک باغ اور اس کے قریب ایک کچا مکان نظر آتا ہے تو پیاس کی شدت اسے وہاں جانے پر مجبور کر دیتی ہے، مکان سے ایک شخص نکل آتا ہے تو بادشاہ کو عام شکاری سمجھ کر اسے بٹھاتا ہے اور پھر اسی باغ سے ایک انار توڑ کر ایک پیالے میں رس نکال کر دیتا ہے، انار کا اتنا میٹھا اور شیریں رس پی کر بادشاہ بہت ہی لطف اُٹھاتا ہے مگر جب اس کے اوسان قدرے بحال ہوتے ہیں تو وہ سوچنے لگتا ہے کہ اتنی دور اس باغ پر سرکاری عمال نے ٹیکس لگایا ہے یا نہیں، تھوڑی دیر بعد وہ ایک اور پیالہ رس پینے کی درخواست کرتا ہے تو پہلے والے انار سے بڑے انار سے بھی اتنا رس نہیں نکلتا جبکہ اس کی شیرینی بھی ترشی میں تبدیل ہوچکی ہوتی ہے، بادشاہ اس کا سبب پوچھتا ہے تو کسان اسے یہ کہہ کر لاجواب کر دیتا ہے کہ لگتا ہے یا تو میری نیت خراب ہوگئی ہے یا پھر بادشاہ کی نیت میں فتور آچکا ہے، بادشاہ دل ہی دل میں شرمندہ ہو جاتا ہے اور اپنی سوچ سے تائب ہو جاتا ہے اس دوران بادشاہ کے مصاحبین بھی اسے ڈھونڈتے ہوئے آتے ہیں تو کسان بادشاہ سمیت سب کو ایک ایک پیالہ انار کا رس نکال کر پلاتا ہے اب انار کا میٹھا ذائقہ بھی واپس آچکا ہوتا ہے۔ کہانی تو آگے بھی چلتی ہے تاہم اس کی تفصیل میں جانے کی بجائے موجودہ صورتحال میں نیتوں کا فتور تلاش کرتے ہیں، یعنی ملک میںگیس کے نئے ذخائر دریافت ہونے کی خبروں کے ہنگام اچانک سردیوں میں شدید گیس شیڈنگ کے اعلانات کے بیچ نیتوں کا کیا فتور پوشیدہ ہے؟ اس حوالے سے آئی ایم ایف کے تازہ ترین ”احکامات” والی خبر یقیناً غور طلب ہے یعنی یہ جو آئی ایم ایف نے بجلی، گیس اور یوٹیلیٹی سٹورز پر سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تو کیا یہ اس بادشاہ کی نیت کے فتور سے کم ہے۔ ملک میں مہنگائی کا جو طوفان پہلے ہی آیا ہوا ہے اور ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن نہ بڑھانے سے ان کی قوت خرید پر پڑنے والے اثرات بھی سامنے ہیں، ایسے میں گیس کی ”قلت” کیا رنگ لائے گی؟ اور سانچ کو آنچ میں بھسم کر کے رکھ دے گی اس پر سوچنا تو بنتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج