4 189

بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی

24ستمبر2017 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں ہر سال ستمبر کے مہینے کی 30تاریخ کو ترجمہ کا عالمی دن منانے کا عزم کیا گیا۔ سو اس قرارداد کے پیش ہونے اور اس کے منظور کئے جانے کے تسلسل میں آج پاکستان سمیت ساری دنیا کے ممالک میں ترجمہ یا تراجم کرنے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، سو جیسے ہی ہمارے علم میں یہ بات آئی ہمیں پاکستان اکادمی آف لیٹر خیبر پختونخوا چیپٹر کے کارپرداز یاد آگئے جنہوں نے ”کورونا” کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے کسی کانفرنس روم میں دانشوروں کو جمع کرکے اس موضوع کو زیربحث لانے کی بجائے آن لائن کانفرنس منعقد کر ڈالی، جس میں راقم السطور کو بطور مہمان خصوصی شرکت کی دعوت دیکر اس کی نہ صرف عزت افزائی کی بلکہ ترجمہ کے موضوع پر چوٹی کے دانشوروں کے خیالات سے استفادہ کرنے کے علاوہ خیبر پختونخوا کے علاقائی ادب میں ترجمہ کی روایت کے حوالہ سے اپنا حاصل مطالعہ بھی پیش کرنے کا موقع دیدیا۔ یادش بخیر ہم نے پاکستان اکادمی آف لیٹر یا ادبیات پاکستان کی اس آن لائن کانفرنس کی اپنی سی کوریج کرتے ہوئے اس موضوع پر ایک کالم بھی لکھ کر منصہ شہود پر لانے کی کوشش کی، ہم نے اپنے زیرتبصرہ کالم کے تمہیدی کلمات میں اُردو زبان کے اولین شاعر حضرت امیر خسرو کے اس ضرب المثل شعر کو دہراتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی کہ
زبان یار من ترکی ومن ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہان من
ترجمہ: میرے یار کی زبان ترکی ہے لیکن میں ترکی نہیں جانتا۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر مجھے بھی ترکی زبان آتی یا میں ترکی بول سکتا۔ اگر ان دنوں ہم عالم ہست وبود میں ہوتے اور ہمیں دل کی بات کہنے کی اجازت ملتی تو حضرت کو کہہ دیتے کہ یہ جو آپ کا ریختہ ہے اسے اہل ترک نے ترکی میں اُردو بمعنی لشکری زبان کا نام دیا ہے اور انگریزوں نے سرکاری یا درباری زبان فارسی کا چراغ مدھم کرنے کیلئے اُردو کے چراغ کو سورج کی سطح پر اُچھال کر اس میں تراجم کا سلسلہ شروع کر دیا، آج کل ہم اسلامی تاریخ کے دور کی سلطنت عثمانیہ کی کہانیوں پر مبنی ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی بڑے ذوق وشوق سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس ڈرامہ کے کرداروں کی لپ سنکنگ کو مشرف بہ اُردو نہ کیا جاتا یا ڈرامہ کرداروں کے مکالموں کا اُردو ترجمہ کرکے اس کی ڈبنگ نہ کی جاتی تو مجھ جیسے کروڑوں اُردو بولنے یا سمجھنے والے اس ایکشن ڈرامہ کے سحر میں گرفتار نہ ہوپاتے یا اس سے وہ حظ نہ اُٹھا سکتے جو ہمیں یہ ڈرامہ دیکھتے ہوئے مبہوت کرنے کا باعث بن جاتا ہے، یہ سب اس ڈرامہ کے مکالموں کے مترجم کا کمال ہے، ہمارے ہاں مختلف زبانوں سے ترجمہ کر کے اس کا ابلاغ کرنے کا رواج نیا نہیں۔ ہم تک تفہیم دین تراجم ہی کی برکت سے پہنچا اور ہمارے دل دماغ اور روح کے علاوہ ہماری نس نس پر حکمرانی کرنے لگا۔ طلسم ہوشربا، الف لیلوی کہانیاں اور داستان، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور اس جیسی متعدد عشق ومحبت بھری کہانیاں اور داستانیں اگر ان زبانوں تک محدود رہتیں جن میں یہ پہلے پہل لکھی، کہی یا سنی گئی تھیں تو ہم ان کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتے ہمارے ادب میں بہت سی اصناف سخن عربی اور فارسی زبان سے مستعار ہیں جبکہ بعد ازاں ان میں انگریزی زبان کی اصناف سخن درآئیں۔ انگریزی کی شارٹ سٹوری ہمارے ہاں پہنچ کر افسانہ بنی، جاپانی صنف شاعری ہائیکو ہمارے ہاں پہنچ کر مقبول عام کی سند حاصل کرگئی، یوں ہمارے ہاں چراغ سے چراغ روشن کرنے کا سلسلہ چلتا رہا۔ ماہرین لسانیات نے ترجمہ کرنے کے عمل کو سائنس بھی کہا ہے اور اسے فنون کے شعبہ میں بھی رکھنا پسند کیا ہے اور اگر سچ پوچھئے تو آج کا یہ دن ایسی ہی شخصیات کی ان بے بدل صلاحیتوں کو جلا بخشنے اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے منا یاجا رہا ہے جو گلوبل ویلیج میں بکھری مختلف الزبان قوموں کو قریب سے قریب تر لاکر ان کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، قاصد، پیام رساں یا پیام بر کسی کے ترجمان ہی کو کہا جاتا ہے، کسی زمانے میں ان کا ملنا محال تھا، آج ہم جس عہد میں زندگی کے شب وروز گزار رہے ہیں اس میں دوریاں اور فاصلے ختم ہوکر رہ گئے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے اس سیارے پر رہنے والے لوگ ایک ہی گھر کے افراد ہوں، مگر ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہ نہ ہوسکنے والے یہ بھی تو کہتے رہتے ہیں کہ
بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے کبھی نہ ملا

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر