2 293

سعودی عرب میں جمہوریت کے آثار

دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے، جمہوری ممالک میں ایک سسٹم کے تحت انتخابات کے نتیجے میں حکومتیں برسراقتدار آتی ہیں اور طے شدہ مدت کی تکمیل پر دوبارہ جمہوری طریقۂ کار کے تحت انتخابات ہوتے ہیں لیکن آج بھی کچھ عرب ممالک ایسے ہیں جہاں پر شاہی نظام حکمرانی ہے، ایک طویل عرصہ سے عرب ممالک میں جمہوری طریقۂ کار رائج کرنے کیلئے دنیا بھر سے مطالبہ کیا جارہا تھا جسے عرب خاطر میں نہیں لارہے تھے لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ جمہوریت کے حق میں اُٹھنے والی سعودی عرب کے اندر سے آوازوں کو دبانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ سعودی عرب میں جو نظام حکومت ہے اس کے خدوخال کیا ہیں۔ واضح رہے سعودی عرب کی حکومت کا بنیادی ادارہ آل سعود کی بادشاہت ہے۔1992ء میں اختیار کئے گئے بنیادی قوانین کے مطابق سعودی عرب پر پہلے بادشاہ عبدالعزیز ابن سعود کی اولاد حکمرانی کرے گی۔ ملک میں کوئی تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے نہ ہی انتخابات ہوتے ہیں البتہ2005ء میں مقامی انتخابات کا انعقاد ہوا۔ بادشاہ کے اختیارات شرعی قوانین اور سعودی روایات کے اندر محدود ہیں۔ علاوہ ازیں اسے سعودی شاہی خاندان، علماء اور سعودی معاشرے کے دیگر اہم عناصر کا اتفاق بھی چاہئے۔ شاہی خاندان کے اہم ارکان علماء کی منظوری سے شاہی خاندان میں کسی ایک شخص کو بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر سے ایران کیخلاف سخت مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اس کے سامنے جھکنے والا نہیں ہے۔ ان کے اس خطاب کے محض چند گھنٹوں بعد ہی سعودی عرب کے جلاوطن رہنماؤں کے ایک گروپ نے ملک میں حزب اختلاف کی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ایسے بیشتر رہنما برطانیہ، امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک میں مقیم ہیں۔ اس کی قیادت لندن میں رہنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن یحییٰ عسیری کر رہے ہیں۔ یحییٰ عسیری کہتے ہیں کہ ان کی سیاسی جماعت کا مقصد سعودی عرب میں شاہی سلطنت کی جگہ ایک جمہوری طرز کی حکومت کا قیام ہے۔ حزب اختلاف کی نئی جماعت، نیشنل اسمبلی پارٹی (این اے اے ایس) نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ حکومت بڑی تعداد میں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور قتل کر کے مسلسل ظلم وتشدد کی راہ پر عمل پیرا ہے۔ عسیری سعودی عرب کی فضائیہ کے ایک سابق افسر ہیں وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹی کا قیام ایک ایسے نازک وقت پر ہوا ہے جب ملک کو بچانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں تعلیم وتدریس سے وابستہ معروف شخصیت مدوی الرشید پارٹی کی ترجمان کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت قائم کرنے والے افراد کو سعودی عرب کے حکمراں خاندان سے کوئی ذاتی بغض وعناد نہیں ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ اس جماعت کے قیام کا وقت اس لئے بہت اہم ہے کیونکہ ظلم وتشدد کے ماحول میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعت کے قیام اور اس کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات پر سعودی عرب کی طرف سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ ماضی میں سعودی عرب اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی انتظامیہ ناقدین اور مخالفین کی آواز دبانے کیلئے ظلم وجبر اور تشدد کا راستہ نہیں اپناتی ہے۔ سعودی عرب نومبر میں جی20کے اجلاس منعقد کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے لیکن خام تیل سے ہونے والی آمدنی میں شدید کمی کے باعث اسے معاشی مندی کا سامنا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس صورتحال میں اپوزیشن جماعت کا اعلان اس کیلئے ایک نیا اور سخت چیلنج ہے۔ شاہ سلمان نے ماضی کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے2017ء میں اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا تب سے عالمی سطح پر سعودی عرب کیخلاف ہونے والی نکتہ چینی میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ 2018ء میں محمد بن سلمان اور سعودی حکومت کی بعض عوام مخالف پالیسیوں کے ناقد سعودی صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی سفارتخانے میں قتل کے بعد سے محمد بن سلمان اور ملک کا سافٹ امیج بری طرح سے متاثر ہوا ہے۔ سعودی حکام اگرچہ اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث تھے، تاہم ایک عدالت نے حال ہی میں آٹھ افراد کو اس قتل کیلئے 20برس قید کی سزا سنائی ہے۔ محمد بن سلمان نے بعض سماجی اصلاحات کا بھی اعلان کیا ہے جس میں خواتین کو گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت شامل ہے لیکن ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان نے متعدد انسانی حقوق کے کارکنان، مذہبی علماء اور ملک کے ایسے دانشوروں کو غیرقانونی طور پر حبس بے جا میں رکھا ہوا ہے جو ان کی بات سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان ان افراد کو کنارے لگانے میں لگے رہتے ہیں جن سے ان کی تخت نشینی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟